کچھ روز سے جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا اور اس کے ارد گرد جاری لڑائی کی خبریں آرہی ہیں اور کہا جارہا ہے کہ یہ لڑائی مقامی قبائلیوں اور غیرملکی دہشت گردوں کے درمیان ہورہی ہے۔ روزانہ دونوں فریقین کے نقصانات کا تخمینہ پیش کیا جا رہاہے۔ ان خبروں کو پڑھ کر ایسے ہی لگتا ہے کہ یہ لڑائی پاکستان کے پڑوسی ملک میں ہورہی ہے جس کا پاکستانی حکومت دور سے جائزہ لے رہی ہے۔ بعد میں یہ بھی خبر آئی کہ پاکستانی حکومت مقامی قبائل کی امداد کررہی ہے اور غیرملکی دہشت گردوں کی ہلاکت پر خوشی منارہی ہے۔ غیرملکی دہشت گرد دراصل وہ ازبک مسلمان ہیں جو روسی مزاحمت کیخلاف افغانستان میں لڑے اور بعد میں یہیں بس گئے۔ انہوں نے یہیں شادیاں کرلیں اور اب وہ اپنی اپنی فیملیوں کے ساتھ پرسکون طریقے سے رہ رہے تھے کہ مقامی لوگوں کو ان کی موجودگی ایک دم کھٹکی اور انہیں یہاں سے چلے جانے کا حکم دے دیا۔ ہرکوئی یہی سوچے گا کہ ازبک مسلمان جو وہاں کی آبادی ميں رچ بس گئے ہیں اب بیس سال بعد کہاں جائیں۔ اگر وہ واپس جاتے ہیں تو ان کی حکومت انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دے گی اور اگر وہ یہاں رہتے ہیں تو پاکستانی حکومت کو وہ قبول نہیں ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب تک طالبان کی حکومت رہی تب تک یہ ازبک پاکستان کیلئے خطرہ نہیں تھے۔ لیکن جونہی طالبان کو اتحادیوں نے ماربھگایا اور شمالی اتحاد والوں نے حکومت قائم کرلی تو اتحادیوں کے دباؤ کی وجہ سے یہی ازبک پاکستان کیلئے خطرہ بن گئے۔
اس وقت وہ غیرملکی مسلمان واپس اپنے اپنے ملک جا کر اپنی حکومتوں کے ہاتھوں ذلیل ہونے کی بجائے یہیں مرنے کو ترجیح دینے پر مجبور ہوچکے ہیں اور اسی لئے ان کے پاس اپنی جان بچانے کیلئے مقامی قبائلیوں جن کی پاکستانی حکومت پشت مناہی کررہی ہے کیساتھ نبرد آزمائی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
اس جنگ میں اب تک دونوں اطراف کا سو سے زیادہ جانی نقصان ہوچکا ہے۔ حکومت چونکہ جدید اسلحے سمیت مقامی قبائل کی مدد کرہی ہے اسلئے لازمی امر ہے کہ پاکستانی جوان بھی اس لڑائی میں کام آرہے ہوں گے جن کا ذکر تک نہیں کیا جارہا۔ اس لڑائی پر اتحادی اسلئے خوش ہیں کہ مسلمان آپس میں لڑ بھڑ کر ختم ہورہے ہیں۔ اتحادیوں کو نہ مقامی قبائل سے ہمدردی ہے اور نہ غیرملکیوں سے۔ ان کیلئے دونوں ہی دہشت گرد ہیں اسلئے دونوں فریقوں کا جتنا بھی نقصان ہو اتحادیوں کے فائدے میں ہے۔ اس لڑائی کو آپ عراق ایران کی لڑائی کا ٹریلر بھی کہ سکتے ہیں۔جس طرح ایران عراق کی دس سالہ لڑائی میں لاکھوں لوگ شہید ہوئے اور جب وہ تھک ہار گئے تو اتحادیوں نے ایک ملک پر قبضہ کرلیا۔ یہی کچھ پاکستانی حکومت کا ارادہ ہے جب دونوں فریق لڑ لڑ کر کمزور ہوجائیں گے تو حکومت کو جہاں بچ رہنے والے غیر ملکیوں کو نکالنے میں آسانی ہوگی وہیں وزیرستان پر قبضہ بھی آسان ہوجائے گا۔
ابھی تک تو ہمارا میڈیا اس لڑائی کو زبانی کلامی دکھا رہا ہے نہ کسی نے کوئی فوٹو چھاپی اور نہ ہی کوئی ویڈیو کیمرہ لے کر اس لڑائی کی فلمبندی کرنے گیا ہے تاکہ وہ ٹی وی پر اس جنگ کے مناظر دکھا سکے۔ حکومت بھی اس لڑائی کو اسی طرح لے رہی ہے جیسے وزیرستان پاکستان میں شامل نہیں ہے اور وہاں کے قبائلی کسی دوسرے ملک کے باشندے ہیں۔
حکومت کی یہ ترکیب اتحادیوں کو تو فائدہ پہنچا سکتی ہے مگر پاکستان کیلئے سرا سر نقصان دہ ہے۔ پتہ نہیں حکومت اس لڑائی سے سر عام لاتعلقی ظاہر کرکے دوسرے قبائل کو کیا پیغام دینے کی کوشش کررہی ہے۔ ایک طرف تو حکومت کی خواہش ہے کہ سارے قبائلی علاقوں پر پاکستانی انتظامیہ کا کنٹرول قائم ہوجائے اور دوسری طرف لاتعلقی دکھا کر ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ قبائلیوں کی جان و مال کی اس کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ کیا یہ پیغام دے کر پاکستنی حکومت پھر بھی خیال کرے گی کہ قبائلی اس کے دائرہ اختیار میں آجائیں گے؟ اگر یہ حکومت کی سوچ ہے تو غلط ہے۔
5 users commented in " جنوبی وزیرستان کیا پاکستان کا حصہ نہیں؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمیرا خیال ہے کہ حکومت اس لڑائی میں شریک ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایک خبر آئی کہ پنجابی طالبان آ آ کر اس علاقے میں آٓباد ہو رہے ہیں۔ اب یہ لوگ فوجیوں کے علاوہ کون ہو سکتے ہیں کہ ایک شورش زدہ علاقے میں بلا کسی روک ٹوک اپنی جان جوکھم میں ڈال کر آباد ہوتے ہیں۔ افغان جنگ میں بھی تو پاکستانی فوجی ہی داڑھیاں بڑھا کر لڑتے رہے ہیں۔
یہ ایک بہت بڑا المیہ محسوس ہوتا ہے جو امریکہ کی ایماء پر اس کے پٹھوؤں نے برپا کیا ہے ۔ قیاس یہی ہے کہ زرخرید جنگجو اور حکومت یا امریکہ کے تربیت یافتہ بھاری اسلحہ سے لیس فوجی یا میسنری بیکس لوگوں کی نسل کُشی کر رہے ہیں ۔ کمال اُستادی سے ساری قوم کو عدالتِ عظمٰی کے جھنجھٹ میں اُلجھا کر یہ نسل کُشی شروع کی گئی ہے ۔ اب سمجھ آتی ہے کہ رچرڈ باؤچر یا باؤخر یہاں کیا کرنے آیا تھا ۔
وزيرستان پاکستان کا حصّہ ہے تو سہی ليکن يہ بھي پتہ ہے کہ ہمارے سُورماؤں کے لۓ اب يہ لوہے کے وہ چنے بن گۓ ہيں جو نا اُگلے بنے نا نگلے يہ الگ بات ہے کہ اس وقت ارباب اقتدار کو اپنی کُرسی زيادہ پياری ہے يا جانيں کيونکہ دونوں ہی خطرے ميں ہيں آگے کُنواں پيچھے کھائ والی مثال آپ نے سُنی ہے نا ہم نے بھی سُنی ہے اور اسکی درُست تشريح اس وقت ہم ديکھ رہے ہيں جس کی تفسير آنکھوں کے سامنے ہے ليکن نا جانے ہمارے حُکمرانوں کو کيوں نظر نہيں آ رہی کاش کہ يہ بند آنکھيں وقت سے پہلے کُھل جائيں ورنہ وقت گُزرنے کے بعد صرف پچھتاووں کی راکھ رہ جايا کرتی ہے اور راکھ کبھی کسی کو کُچھ نہيں ديا کرتی سواۓ آنکھوں ميں بُجھتے ہُوۓ ،مٹتے ہُوۓ ،بے نام خوابوں کے اور خواب تو بس خواب ہی ہوتے ہيں
[shahidaakram], ABUDHABI, متحدہ عرب امارات
وزیرستان پاکستان کا حصہ کیسے ہو سکتا ہے؟ 2002 تک وہاں کی عوام ووٹ دینے کے حقدار نہیں تھے۔ ووٹ کا حق ملا تو ساتھ میں فوج کی گولیوں کے بھی حقدار بنے۔ ہماری ’’پاک‘‘ فوج نے کچھ ایسی آگ جلائی ہے جسمیں اب وزیرستان کا سب کچھ جل رہا ہے۔ وہ اُزبک جو ہمارے مہمان تھے اب ہمارے دشمن بن چکے ہیں۔ پہلے یہ کام فوج کرتے تھی۔۔۔مہمانوں کو ڈالروں کے عوض بیچنے کا، اب عوام نے شروع کر دیا ہے۔ یہ کھیل زیادہ پرانا تو نہیں۔
جناب !
مجھے آپ کے پہلے ہی نکتے سے اختلاف ہے ، شائد یہ مسئلہ ہی اسلئے شروع ہوگیا تھا کہ یہ لوگ قبائیلی علاقوں میں پرامن زندگی گزارنے کے قائل نہیں تھے اور شدت پسندوں کی مدد کررہے تھے ۔ حکومت نے اس سے پہلے بھی ان لوگوں کو بار بار پرامن طور پر رہنے کی شرط پر یہاں رہنے کی پیشکش کی ہے لیکن یہ ممکن نہیں کیونکہ وزیرستان کا علاقہ طالبان مزاحمت کاروں کے امداد کا واحد راستہ ہے اور اس کو روکنا نیٹو ، افغان فوج اور پاکستان کی حکومت کسی کے لئے ممکن نہیں ۔ یہی تو اس مسئلے کی اصل جڑ ہے ۔ یہ غیرملکی چاہے وہ ازبک ہوں یا کوئی اور وہ طالبان اور القاعدہ کے بچھے کچھے لوگوں کی مدد کررہے تھے ۔ اب تک علاقے کے لوگ اور مقامی طالبان ان کی پشت پناہی بھی کرتے رہے لیکن مسائل زیادہ ہونے پر یہ نیا تنازعہ کھڑا ہوا ، اس کے وجوہات کیا یہ ابھی مکمل طور پر واضح نہیں ہورہا ہے ۔
Leave A Reply