پتہ نہیں یہ کونسی سیاست ہے کہ ایم کیو ایم نے حکومتی بنچوں پر بیٹھنے کی حامی بھر لی ہے مگر وزارتیں قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یعنی حکومت کا ساتھ بھی دینا ہے اور حکومت کا حصے دار بھی نہیں بننا۔ جب ایم کیو ایم نے حکومت سے الگ ہونے کا اعلان کیا تو ہمیں اسی وقت یقین تھا کہ ایم کیو ایم حکومت سے زیادہ دن الگ نہیں رہے گی کیونکہ ایم کیو ایم اپوزیشن میں بیٹھنے کی عادت عرصے سے بھول چکی ہے۔ حکومت ن لیگ کی ہو، ق لیگ کی یا پی پی پی کی ایم کیو ایم بناں کسی نظریاتی اختلاف کو ذہن میں لائے حکومت میں شامل ہونا اپنا فرض عین سمجھتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلی حکومت میں ایم کیو ایم کس کیساتھ شامل ہوتی ہے۔
7 users commented in " حکومتی بنچوں پر مگر وزارتوں سے انکار "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackپاکستان مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نے ملک میں جاری سیاسی بحران کے تناظر میں حکومت کو تین دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے اصلاحِ احوال کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بہتّرگھنٹوں میں مسلم لیگ (ن ) کے مطالبات کا جواب ہاں یا ناں میں دیا جائے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ اگر اُن کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو اُس صورت میں صوبہ پنجاب سے پیپلز پارٹی کو حکومت سے الگ کر دیا جائے گا۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ حکمراں اتحاد میں شامل جمعیت علمائے اسلام اور متحدہ قومی موومنٹ حکومت کی طرف سے وعدے پورے کیے جانے اور بہتر طرز حکومت نہ ہونے کی وجہ سے اتحاد سے علیحدہ ہوئی ہیں جبکہ اُن کی جماعت کچھ ماہ کے بعد ہی حکومت سے علیحدہ ہوگئی تھی۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نواز کا موقف ہے کہ کسی غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
کیا آپ نے تھوکتے ہوئے چاٹنا سنا ہے؟ نہیں تو یہ کل ایم کیو ایم نے کرکے دکھایا۔ لیکن ایک ایم کیو ایم ہی کیا یہاں کون ہے جو ایسا نہ کرتا ہو۔ وہ سندھ کا بدمعاش وزیر داخلہ جو کل تک بکواس کرتا رہا آج کا بیان پڑھ لیں۔ یہ سیاستدان تو اس قابل ہیںکہ یہ منہ کھولیں تو کوئی بندہ خدا ان کے منہ میںگوبر ڈال دے تاکہ ان کا منہ غلاظت سے بھرے اور بند رہے۔
ايم کيو ايم کی واپسی جمہوريت، سندھ اور پاکستان کے مفاد ميں ہے۔ حکومت کرنا پي پی پی کا جمہوری حق ہے اور اس سے اختلاف بھی مخالفين کا جمہوری حق ہے۔ وزارت سے نکالنے پر حکومت سے عليحدگی اور پيٹرول کی قيمت ميں اضافہ پر اتحاد سے باہر ہونے کے فرق کو سمجھنا ہوگا۔ ن ليگ کی پی پی پی کو پنجاب حکومت سے نکالنے کی دھمکی تین سال ليٹ ہے۔ پاکستان کے ’آقا‘ ابھی پی پی پی، ايم کيو ايم اتحاد کے حق ميں ہيں۔ ن ليگ کی حاليہ سياست شيخ مجيب الرحمان کی سياست سے مشابہت رکھتی ہے۔
ایم کیو ایم الیکشن سے قبل حکومت چھوڑ دے گی۔
مگر یہ بات تو سچ ہے کہ وہ اقتدار میں بھی رہتی ہے ۔اور ناانصافیوں کا رونا بھی روتی ہے ۔منافقت کی انتہا ہے ۔
حکومت سے الگ ہونا کوئی خالہ جی کا گھر ہے
ایم کیو ایم کو حکومت میں رکھنا ہر حکومت وقت کی مجبوری ہوتی ہے کیونکہ ان کے پڑھے لکھے اراکین اسمبلی کے کیئے ہوئے اچھے کاموں کا کریڈٹ بھی تو حکومت وقت کو لینا ہوتا ہے!!!!!
ابو سعد خان وہ سندھ کابدمعاش وزیر داخلہ جو بکواس کرتا رہا تھا اسی کے بھرے میں آکر تو تمھارے دہشت گردپکڑے گئے ہیں،اسی لیئے ذہر ورگا لگ رہا ہے وہ تمھیں!
🙂
میٹھا میٹھا ہپ ہپ۔ کڑوا کڑوا تُھو۔ یہ ایک قیو ایک کی سرشت میں شامل ہے۔
Leave A Reply