کسی بھی حکمران یا سیاستدان کو چیک کرنا کہ وہ حلال کا تخم ہے یا حرام کا بہت ہی آسان ہے اور اس کیلیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ بس اس حکمران یا سیاستدان کے بارے میں چند سیدھے سادھے سوالوں کے جواب دیجیے اور اگر زیادہ تر جوابات نفی میں ہوں تو وہ حرام کا تخم ہے وگرنہ حلال کا۔
کیا وہ دوہری شہریت رکھتا ہے؟
کیا اس کے زیادہ تر اثاثے بیرون ملک ہیں؟
کیا حکمرانی کے دوران اس کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا؟
کیا وہ عام آدمی کی طرح زندگی بسر کر رہا ہے؟
کیا اس کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل نہیں کر رہے ہیں؟
کیا اس کے دور میں قرضوں کا بوجھ کم ہوا؟
کیا اس کے دور میں قومی ادارے غیرملکی فرموں کو بیچے گئے؟
کیا اس کے پیش کردہ بجٹ سے مہنگائی میں کمی ہوئی؟
کیا اس نے بجٹ میں تعلیم اور صحت کیلیے دس فیصد سے زیادہ رقم مختص کی؟
کیا اس نے عوام سے کیے گئے وعدوں کا پاس کیا؟
کیا وہ نماز روزہ کا پابند ہے؟
کیا اس نے حکمران ہوتے ہوئے اپنے خرچ پر عمرہ یا حج کیا؟
کیا اس نے ملکی اور غیرملکی افراد کو برابر جانا؟
ہم نے تو ان سوالات کیساتھ اپنے تمام سابقہ حکمرانوں کا تجزیہ کیا ہے اور ہمیں حلال کا تخم تلاش کرنے میں انتہائی مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگر آپ کوئی حلال کا تخم ڈھونڈ پائے ہوں تو ضرور بتائیے گا۔
9 users commented in " ٹیسٹ برائے حلال یا حرام کا تخم "
Follow-up comment rss or Leave a Trackback🙂
ہی ہی ہی ہی ہی ہی ہی
اس چیک لسٹ کو تو بس عمران خان ہی کوالیفائی کرتا دکھائی دیتا ہے جناب۔
کیا نا آخر اپنے ہمز باں کا فیور،
ورنہ اس لسٹ پر ایم کیو ایم کے تمام ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی بھی پورے اترتے ہیں،بلا تخصیص زبان و مزہب!!!!!
فہرست ميں ايک سوال غير ضروری ہے ۔ بچوں کا ملک سے باہر تعليم حاصل کرنا نہ بڑی بات ہے نہ بُری بات ۔ ہاں ناجائز طريقہ سے حاصل کردہ مال پر يہ تعليم نہيں بلکہ مال حاصل کرنا غلط ہے ۔ ميں نے جس ادارے ميں ملازمت کی تھی وہان سٹاف اور ورکرز کے بچوں نے بھی بيرونِ مُلک تعليم حاصل کی
ايک سوال ميں آپ نے تعليم کيلئے 10 فيصد بجٹ کی شرط لگائی ہے ۔ جبکہ اس مُلک ميں 3 فيصد سے زيادہ بجٹ کبھی تعليم کيلئے نہيں رکھا گيا ۔ شرط يہ ہونا چاہيئے تھی جو بھی بجٹ ملا اسے حلال طريقہ سے تعليم پر ہی لگايا گيا
ايسے سياستدان ہيں بلکہ سربراہ بھی رہے ہيں جن کی دوہری شہریت نہيں ۔ ان کے زیادہ تر اثاثے بیرون ملک نہیں ۔ حکمرانی کے دوران ان کی دولت میں عمومی اضافہ ہوا اور وہ عام آدمی کی طرح زندگی بسر کرتے ہيں ۔ ان کے دور میں قومی ادارے غیرملکی فرموں کو نہيں بیچے گئے ۔ وہ نماز روزہ کا پابند ہيں ۔ انہوں نے حکمران ہوتے ہوئے ہميشہ اپنے خرچ پر عمرہ یا حج کیا اور اس کی تشہير بھی نہيں کی ۔ انہوں نے ملکی افراد کو غیرملکی افراد پر ترجيح دی
ان کے نام آپ خود تلاش کيجئے
ویسے عمران خان کا دور ابھی تک آیا نہیں ہے اس لیئے بہت سارے سوالوں پر وہ پورا نہیں اترتا
ھھم بہت هی اچھا سوال اٹھایا هے اپ نے
سابقہ حکمران یعنی جو حکومت کر چکے یا کر رہے ہیں۔ان میں “حلال کا تخم“
تو نطر نہیں آتا۔
ایک ضروری بات کہ کسی ملک میں حکمران کا ہونا ضروری ہے۔
اور اس “حکمران“ سے بچنے کیلئے اگر آپ جنگل میں بھی چلے جائیں گے تو وہاں بھی کوئی حکمران یا جنگل کا بادشاہ ضرور ہو گا۔
اور ہاں اپنے آپ کو حکمرانی کےلیے پیش کرنا “حرام“ نہیں ہے ۔بلکہ کار ثواب ہے اگر آپ دیانتداری سے سمجھتے ہوں کہ میں موجودہ تمام امیدواروں سے اس کام کے لیے بہتر ہوں ۔
اب ہم مستقبل کے حکمرانوں کی کرسی پر جن لوگوں کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔
1۔وہ جو اس انتخابی نظام اور نظام ِ انتخاب اورموجودہ الیکشن کمیشن کو ٹھیک سمجھتے ہیں اور اسی طریقے سے حکمران بننا چاہتے ہیں۔مثلاََ عمران خان نیازی، طاہر القادرری اور ندیم ممتاز قریشی وغیرہ
2۔وہ جواس انتخابی نظام اور نظام ِ انتخاب اور موجودہ الیکشن کمیشن کو درست نہیں سمجھتے۔اور کسی دوسے طریقے سے خکمران بننا چاہتے ہیں۔
پہلا فوجی،عدالتی،یاملائی “کوُ“
دوسرا پُر امن اسلامی “انقلاب“ بطریقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصرِ حضر کے تقاضائوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یعنی اللہ کی جماعت پر امن رہے جبکہ موجودہ نظام کے حامی برسرِاقدار طاقت کا استعمال کریں اور حالات یعنی دونوں طرف “کلمہ گو“ کو سمجھتے ہوئے۔
Leave A Reply