ملکوں کي ترقي ميں شاہراہيں، بندرگاہيں اور ايرپورٹس بہت اہم ہوتے ہيں۔ اس سے پہلے جنرل صدرپرويز مشرف صاحب نے گوادرپورٹ کاافتتاح کيا اور اب اسلام آپاد کے نئے ايرپورٹ کا سنگ بنياد رکھ ديا ہے۔ يہ منصوبہ دودہائيوں سے التوا کا شکار تھا۔ آج تک ہميں يہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس ايرپورٹ کي تاخير کي کيا خاص وجہ تھي۔ اگر يہ ايرپورٹ بہت پہلے بن جاتا تو اس پر بہت کم لاگت آتي۔ اب اس کي لاگت بڑھ کر چوبيس ارب روپے ہوگئ ہے۔ يہ منصوبہ تين سال ميں مکمل ہوگا۔ جنرل صدر مشرف نے جہاں چند اچھے کام کيے ہيں ان ميں ايک اور کام کا اضافہ کرديا ہے اور يہ ايرپورٹ انہي کے دور حکمراني کي نسبت سے جانا جائے گا۔
مانا کہ اس ايرپورٹ کي تعمير سے اسلام آباد کي ايليٹ کلاس اور ہمارے وائسراوؤں کو براہ راست فائدہ ہوگا مگر ان کے صدقے اس کے فوائد ايک آدمي تک بھي پہنچيں گے۔ مثلاً ٹرانسپورٹروں کو لمبا اور آسان روٹ مل جائے گا۔ آس پاس رہنے والوں کي زمينوں کي قيمت بڑھ جائے گي۔ جيسے ہمارا ايک پلاٹ جو سنگجاني کي اي ايم اي کي سوسائٹي ميں گزشتہ بيس سال سے بےکار پڑا ہوا ہے اب اس قابل ہوجائے گا کہ ہم اپني لگائي ہوئي رقم سے فائدہ حاصل اٹھا سکيں۔
يہ بات تو طے ہے کہ اسلام آباد ايرپورٹ کا سب سے بڑا فائدہ اسلام آباد کے رہائشيوں کو ہو گا۔ يہاں سے فوج کے تينوں شعبوں کے سيکٹر نزديک ہوجائيں گے۔ سفيروں کي رہائشيں تھوڑي دور ہوجائيں گي مگر ايرپورٹ پر انہيں ان کي شان کے مطابق سہولتيں ميسر ہوں گي۔
اس ايرپورٹ کے پاس سے سپر ہائي وے گزرے گي اس طرح پشاور اور لاہور کي طرف جانے والوں کو شہر کي ٹريفک سے نجات مل جائے گي۔ ايرپورٹ کے دو رن وے ہوں گے اسطرح پروازوں کي تاخير ميں کمي ہوگي۔ کہتے ہيں يہ ايرپورٹ ايک لمبے عرصے تک ملک کي ضروريات پوري کرتا رہے گا۔
ہم اس کارخير پر حکومت کو مبارکباد ديتے ہيں اور اميد کرتے ہيں کہ حکومت اسي طرح دوسرے اہم کاموں يعني ملک ميں جمہوريت کي بحالي اور سپريم کورٹ کے چيف جسٹس کيخلاف ريفرينس کي واپسي پر بھي توجہ دے گي اور تاريخ ميں اپنا نام درج کرالے گي۔ اس کے علاوہ حکومت نے ابھي گم شدہ افراد اور سياسي قيديوںکو بھي رہا کرنا ہے، نيب کا محکمہ جو بدنام ہوچکا ہے اس کي عزت کو بحال کرنا ہے، ملکي تجارت ميں خسارے کو کم کرنا ہے، بجلي کے شديد بحران سے بچنے کي کوشش کرني ہے، کراچي شہر کو دوبارہ عروس البلاد بنانا ہے، جاہل ملاؤں کو لگام ڈالني ہے، وزيرستان اور بلوچستان ميں مسلمانوں کا قتل عام روکنا ہے، جلاوطن ليڈروں کو واپس آنے کي اجازت ديني ہے۔ لسٹ تو بہت لمبي ہے مگر ہم نااميد نہيں ہيں۔
6 users commented in " اسلام آباد ايرپورٹ کا سنگ بنياد "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاس بات سے تو مفر نہیں کہ ہر ایسی تعمیر فائدہ مند ہی ہوتی ہے لیکن ہم جیسے غریب ملک میں ایسی تعمیرات کے حق میں یا مخالف فیصلہ کرنے کے کچھ اصول اور ضوابط ہونے چاہییں۔
پہلی بات کہ یہ پیسہ مشرف صاحب کا ذاتی پیسہ نہیں تھا، عوام کا تھا اور ان سے پوچھ کر ہی استعمال کیا جانا چاہییے تھا۔ ذرا سوچیے کہ اگر یہی 24 ارب روپے ملک کے دیہی علاقوں میں سڑکوں، سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر میں خرچ ہوتے تو فائدہ زیادہ ہوتا یا کہ اب ہو گا؟ مثلآ ایک ایک ارب کی لاگت کے 24 ہسپتال، یا 50 کروڑ کی لاگت کی 48 سڑکیں، یا 1 کروڑ فی عدد کے 2400 سکول؟؟؟
تاریخ میں آتا ہے کہ ہر کرپٹ سیاستدان اور ڈکٹیٹر نے اپنی راجدہانی پر سب سے زیادہ روپیہ خرچ کیا ہے بہ نسبت دوسرے علاقوں کے۔ لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ نتیجہ غریب ممالک کے بڑے بڑے اور جدید دارلحکومت اور باقی ملک کا اللہ حافظ۔
مجھے یہ خبر سن کا افسوس ہوا۔۔۔
میں اس سلسلے میں بلاگر سے متفق ہوں ایر پورٹ ریلوے سٹیشن موٹر وے یا فری وے چاہے کسی بھی نیت سے بنائیں جائے آخر کار ان کے نتائج اچھے ہی آتے ہیں اور خلق خدا کو اسکا فائدہ ہی ہوتا ہے۔۔ اور معیشت میں مثبت اثرات ہی ہوتے ہیں۔۔ ایر پورٹ ملک کا چہرہ ہوتے ہیں اسلیے بڑے، صاف ستھرے، سہولیات اور بااخلاق عملے سے مزین ایر پورٹ غریب سے غریب ملک کی ضرورت ہوتے ہیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر آپ کے اچھے اثرات پڑیں۔۔
پہلی بات: ملک کا امیج ایسی چیزوں سے نہیں بلکہ عام آدمی کے معیار زندگی سے بنتا اور ناپا جاتا ہے، مثلآ دولت کی تقسیم، زندگی کی طوالت، ہسپتالوں میں بستروں کی تعداد، اساتزہ کی تعداد بہ تسبت آبادی وغیرہ وغیرہ۔ کئی غیر ملکی اسلام آباد کو طنزیہ نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ اس شہر سے کسی بھی سمت میں دس کلومیٹر باہر نکل جائیے تو اصل زندگی کا نظارہ ہوتا ہے۔
دوسری بات: ہم امییج بہتر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ بقول شخصے اس سے سیاحت اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ معاشیات کے سائنسدانوں کی کی گئی تحاقیق کچھ اور ہی کہانیاں سناتی ہیں۔ میں آزاد معیشت، عالمگیریت اور ایسی ہی اچھی سنائی دینے والی باتوں کا پرچار کرنے والوں سے یہی بات کرتا ہوں کہ وہ ان کے حق میں اعداد و شمار کے ساتھ بات کریں، افسوس کہ سوائے چند ایک کے انکو کوئی مثالیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں۔ ہمارے بغل میں ہی چین اور بھارت کی مثالیں ہیں جن کی آبادی پاکستان سےدس بارہ گنا زیادہ ہے لیکن شائد ایک بھی شہر اسلام آباد جیسا نہیں۔ وہاں کا امیج تو پھر بھی ٹھیک ہے، سفیر بھی رہ رہے ہیں اور غیر ملکی بھی سیاحت کو جوق در جوق جاتے ہیں!
ارے بھائی آپ لوگ خاطر جمع رکھئے ۔ یہ ائر پورٹ کی تعمیر کا صرف افتتاع اسلئے ضروری ہو گیا کہ جو سپر ہائی وے پرویز مشرف صاحب اسلام آباد میں مجوزہ جی ایچ کیو سے جی ٹھ روڈ تک بنوانا چاہتے تھے اس کی مخالفت ہو گئی تھی اب ائرپورٹ کے نام پر اس کی منظوری لی جائے گی ۔ دوسری وجہ ایک فوجی افسر کی پانچ سو زمین جو اُس نے تین سو سے ڈیڑھ ہزار روپے فی کنال خرید کی تھی وہ پانچ لاکھ روپے فی کنال خریدنا تھی تاکہ اس [غریب} فوجی افسر کا بھلا ہو جائے ۔ دیکھئے
http://www.dawn.com/2007/04/07/nat11.htm
معذرت کے ساتھ میرے اُوپر کے تبصرہ کی تصحیح
1 ۔ جی ٹی روڈ
2 ۔ پانچ سو کنال زمین
بھائی مجھے تو اس ائیرپورٹ میں گھپلوں کی بھرمار کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ میں یہ مان ہی نہیں سکتا کہ اس کی پلاننگ درست انداز میں کی جائیگی۔ دیکھیں اس ائیرپورٹ کے بننے کے بعد اسلام آباد کے فتح جنگ کی سمت واقع سیکٹر میں بھی آباد کاری ہوگی۔ اسلام آباد پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہے۔ میرا سوال ہے کہ اس آبادی کیلیے پانی کہاں سے آئیگا؟؟؟
Leave A Reply