جنگ کی خبر کیمطابق الیکشن کمیشن نے دوٹروں کی تصدیق کیلیے آٹھ کروڑ دس لاکھ ووٹرز کی لسٹ نادار کو بحھوائی۔ نادرا کے ریکارڈ کیمطابق ان میں سے تقریبا آدھے یعنی تین کروڑ ستر لاکھ ووٹ جعلی نکلے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ۲۰۰۸ میں ہونے والے انتخابات میں آدھے ووٹ جعلی بھگتائے گئے۔ اب آپ خود سوچیں کہ ان انتخابات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ یہ ووٹ بنانے والے کون تھے اور بھگتانے والے کون تھے؟ ان ووٹوں کا کس کو فائدہ ہوا؟
ان تحقیقات کے بدلے کیا الیکشن کمیشن کوئی ایسا فول پروف سسٹم بنانے کی کوشش کرے گا کہ دوبارہ اتنی تعداد میں جعلی ووٹ نہ بنائے جا سکیں۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ شناختی کارڈ ووٹ رجسٹر کرنے کیلیے لازمی قرار دے دے بلکہ ہر ووٹر کی تصدیق کیلیے سرکاری ملازم کی تصدیق لازمی قرار دی جائے۔
ویسے تو سادہ سا طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نادرا کے ریکارڈ کو ہی ووٹر لسٹ مان لیا جائے اورووٹر اسی حلقے میں ووٹ ڈالنے کا پابند ہو جہاں کا پتہ اس کے شناخٹی کارڈ میں درج ہو۔ انتخابات کے دوران تین چھٹیاں دے دی جائیں تا کہ لوگ آرام سے اپنے اپنے علاقوں میں جا کر ووٹ ڈال سکیں۔
1 user commented in " پچھلے انتخابات کے آدھے ووٹر جعلی؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackالیکشن کمیشن کوئی ایسا فول پروف سسٹم بنانے کی کوشش کیوں کرے ؟
یہ کام حکومت کا ہے جس نے ابھی تک الیکشن کمیشن کو ہی مکمل نہیں کیا۔ اس معاملے میں حکومت اور اپوزیشن ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔کیونکہ دونو ں کا مفاد اسی میں ہے۔
Leave A Reply