پاکستانی وزیر جب بھارتی دورے پر گئے تو ان کی ملاقات اپنے ہم منصب سے ہوئی۔ ان کے ہم منصب نے ان کی دعوت اپنے گھر پر کی۔ پاکستانی وزیر بھارتی وزیر کا بہت بڑا گھر دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھنے لگے کہ آپ نے اپنی معمولی سی تنخواہ میں اتنا بڑا گھر کیسے بنا لیا۔ بھارتی وزیر نے پاکستانی وزیر کو گھر کی کھڑکی کے پاس بلایا اور پوچھا کہ کیا وہ باہر دریا دیکھ رہے ہیں؟ پاکستانی وزیر نے کہا ہاں۔ پھر بھارتی وزیر نے پوچھا کہ کیا وہ اس دریا پر بنا ڈریم بھی دیکھ رہے ہیں؟ پاکستانی وزیر نے کہا ہاں۔ بھارتی وزیر کہنے لگا کہ اس میں میرا حصہ دس فیصد تھا۔
کچھ عرصے بعد بھارتی وزیر نے پاکستان کا دورہ کیا اور ان کے ہم منصب نے ان کی اپنے گھر پر دعوت کی۔ بھارتی وزیر بھی پاکستانی وزیر کے گھر سے بہت مرعوب ہوئے اور اس کی وجہ پوچھی تو پاکستانی وزیر نے بھی بھارتی وزیر کو کمرے کی کھڑکی کے پاس بلا کر پوچھا کہ کیا وہ باہر دریا دیکھ رہے ہیں؟ بھارتی وزیر نے کہا ہاں۔ پھر پاکستانی وزیر نے پوچھا کہ کیا وہ اس پر بنا کالاباغ ڈیم دیکھ رہے ہیں؟ تو بھارتی وزیر نے پوچھا کہ کونسا ڈیم؟ پاکستانی وزیر نے کہا کہ اس ڈیم میں میرا سو فیصد کمیشن تھا۔
8 users commented in " دس فیصد بمقابلہ سو فیصد "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackشکر ہے دریا ابھی تک وہیں ہے۔۔
راشد کامران صاحب نے ٹھیک کہا
شاید بالکل آف دی ٹاپک تبصرہ ہے یا بالکل آن ٹاپک۔ اس لیے یہیں پوسٹ کردیا۔ جنگ اپریل 24 ۔ گلبرگ میں نو سالہ بچی کے ساتھ زیادتی ۔۔ بے ہوشی کی حالت میں سڑک پر پھینک کر فرار۔۔ جنگ اپریل 25 مقدمہ درچ نامعلوم افراد کی تلاش شروع۔۔ کوئی مذمت، کوئی بیان، کوئی ریلی ۔۔ صفر۔ سمجھ نہیں آرہا کہاں غائب ہوگئیں انسانی حقوق کی چیمپین این جی اوز جن کو مختاراں مائی تو نظر آئی نو سالہ بچی نہیں۔۔سمجھ نہیں آتا کہاں غائب ہوگئیں ڈنڈا بردار ننجا مجاہدائیں ۔۔ سمجھ نہیں آرہا کہاں غائب ہوگئی ایم کیو ایم کی کرشماتی قیادت اور ایک لاکھ ہمدرد جن کو اسلام آباد کی چلڈرن لائبریری کی فکر ہے مگر انکی ناک کے نیچے انکے گڑھ گلبرگ میں ایک چائلڈ کی زندگی تباہ کردی گئی مگر نہ تو انکے قائد کا خون کھولا نہ انکا فون بولا۔۔ سمجھ نہیں آتا کہاں گئے ایم ایم اے کے علامہ و مولانا حضرات جن کا اسلام عورت سے شروع ہوتا ہے اور عورت پر ختم ہوتا ہے ۔۔ سمجھ نہیں آتا کہاں گئے سندھ کے وزیر اعلی اور گورنر جن کو جیف جسٹس کے آفٹر شیو خریدنے کی خبر مل گئی مگر ایک بے بس بچی کی چیخیں سنائی نہیں دیں۔۔ اب آپ کو پتہ چلا گیا ہوگا کے ڈیم کہاں غائب ہوا۔۔ جہاں یہ سارے لوگ، جہاں ہم سب کی انسانیت اور مذہب غائب ہوا ۔۔ جہاں پورا معاشرہ غائب ہوگیا جو ایک پھول جیسی نوسالہ بچی کے بچپنے کی حفاظت تک نہیں کرسکتا۔۔ مزید ہم کیا کرسکتے ہیں۔۔ ہمیںتو اپنا بنایا ایٹم بم اپنے اوپر ہی مار لینا چاہیے کے اپنے سب سے بڑے دشمن ہم خود ہیں
راشد بھائی! آپکی بات بجا ہے۔ واپڈا کے چیئرمین صاحب جب یہ کہہ رہے ہوں کہ ملک میں کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی تو انہیں دوسری باتوں کا کسطرح پتہ ہو سکتا ہے؟
بھائی اجمل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی اور مذہب انکی آئیڈیالوجی کو چیلینج بھی تو نہیں کرتا۔۔ کیونکہ انکو سب سے زیادہ خطرہ اس بات سے ہے کہ انہوں نے عورت کے استحصال کا جو نظام برسوں میں بنایا ہے کہیں ایسا نہ ہو کے مسلمان عورتوں کی دیکھا دیکھی غیر مسلم عورتیں بھی اپنے تحفظ کے لیے حجاب استعمال کرنا شروع کردیں اور ان حقوق کا مطالبہ کردیں جو ایک مسلمان عورت کو اسلام نے دیے ہیں۔ مغرب کے لیے یہ بات نا قابل قبول ہے چناچہ اس نے مسلمان عورت کو نشانہ بنایا کیونکہ وہ انکے نظام کو انکے نظام میں رہتے ہوئے چیلنج کرتی ہے۔۔
ایک اور بھول ۔۔ برائے مہربانی اس کو درگزر کریں اور یہاں سے غائب کردیں۔۔
گھر گھر کی کہانی يا ہر گھر کي کہاني
راشد صاحب دُکھوں کی اس نگری ميں کوئ ايسی آواز سُننا پسند نہيں کرتا نغموں کي مدھر تانيں،موسيقی کی آواز،نوٹوں کی خُوشبوکرنسی خواہ کوئ بھی ہو ڈالر پاؤنڈ ريال درہم روپيہ ٹکا کُچھ بھی ہو چلے گا ، کُرسی کا نشہ اب اس کُرسی کے پاؤں خواہ کسی کی ہتھيليوں پر رکھے ہوں جن ميں بے شک کسی کی آہيں اور سسکياں چُھپی ہوں ليکن چھوڑيں نا کون ديکھتا اور کون سُنتا ہے ان آہوں اور سسکيوں کو ،دُنيا بہت خُوبصورت ہے ايسے ميں کسی معصُوم کی چيخوں اور زاری پر کون دھيان دے گا جس سے دلوں پر چيرے لگ جائيں کوئ بھی نہيں
[shahidaakram], ABUDHABI, متحدہ عرب امارات
Leave A Reply