مشرف دور سے خواتین کو اسمبلیوں میں نمائندگی اور وزارتیں دینے کی جو روایت شروع ہوئی تھی وہ پی پی پی نے جاری رکھی ہوئی ہے۔ پہلے قومی اسمبلی کی سپیکر، پھر وزیر ا طلاعات اور اب وزیرخارجہ عورت بنی ہے۔ حنا ربانی کھر پاکستان کی پہلی خاتون وزیر خارجہ ہیں۔ وہ آج کل بھارت کے دورے پر ہیں اور وہاں ان کی جوانی اور خوبصورتی کیساتھ ساتھ نئی نسل کی نمائندگی کے چرچے عام ہیں۔
حنا ربانی کھر پہلے خزانہ کی وزیرمملکت رہیں اور ایک بار انہیں بجٹ پیش کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔ جس طرح ان کا معاشیات میں کوئی تجربہ نہیں ہے اسی طرح ان کا خارجہ امور میں بھی کوئی تجربہ نہیں ہے۔ انہوں نے 1999 میں لمز سے بی ایس سی آنرز کی اور 2001 میں یو ایس اے کی یونیورسٹی سے ہوٹل مینجمنٹ میں ایم ایس سی کی۔ اپنے خاندانی پس منظر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے وہ مشرف کے دور میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئیں اور 2008 میں جب مسلم لیگ ق نے انہیں ٹکٹ نہ دیا تو انہوں نے پی پی پی کے ٹکٹ پروہ سیٹ دوبارہ جیت لی۔
جس طرح ڈاکٹر فردوس اعوان کو وزیر اطلاعات اور اب حنا ربانی کھر کو وزیر خارجہ بنایا گیا ہے اس سے حکومت کی ملکی معاملات میں غیرسنجیدگی واضح ہو جاتی ہے۔ ویسے تو جب کئی مہینوں تک خارجہ امور کی وزارت خالی رہی، اسی سے پتہ چل جاتا ہے کہ خارجہ امور کی اہمیت کتنی ہے۔ ویسے بھی موجودہ سیٹ میں خارجہ امور یا تو فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہ نمٹا رہے ہیں یا پھر براہ راست صدر زرداری۔ حنا ربانی کھر تو نام کی وزیر خارجہ ہوں گی۔ جس عورت کو کسی ہوٹل کی مینجر ہونا چاہیے تھا وہ پاکستان کے خارجہ امور کی دیکھ بھال کرنے پر لگا دی گئی ہے۔
عورتوں کو وزارتیں سونپنے کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے اور وہ ہے حکمرانوں کا مردوں کی بجائے عورتوں کو اپنی مرضی سے ہانکنا۔
5 users commented in " جوان خوبصورت مگر ناتجربہ کار وزیر خارجہ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackپاکستان کی اہم وزارتوں پہ ،فوج کے چیف کی طرح امریکہ کی ہدایت پہ انکے پسندیدہ لوگ براجمان کئیے جاتے ہیں۔
امریکہ کے حکم کی روگردانی سے ایوب سے لیکر مشرف تک کسی کو جراءت نہ ہوئی۔ تو زراداری کی کیا مجال ہے کہ وہ امریکہ کے سامنے دم مارے؟۔
اور آجکل پاکستان کو روشن خیالی کا ٹڑکہ لاگانے کے لئیے امریکی کی خاص نظرِ کرم ہے اس بارے۔ اسکا بس چلے تو ہل کی ہتی خواتین کو اور چولھے کی چوکی مردوں کو تھما دے۔
ابھی تو بہت کچھ ظہور پذیر ہونے والا ہے کہ انکھیں خیرہ ہوجائیں گی۔ بس انتظار کی جئیے اگر کوئی معجزہ نہ ہوا تو پاکستان میں ہمیں وہ دن بھی دیکھنے باقی ہیں کہ شرم سے منہ چھپاتے پھریں گے۔
افضل صاحب میں یہ نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر ہوں کہ آپ کا اولین اعتراض عورت ہونے پر ہے یا نا تجربہ کار ہونے پر؟ کیونکہ اگر آخری سطر دیکھی جائے تو ایسا لگتا ہے آپ کا اصل مقدمہ ان کے عورت ہونے پر ہے۔ حالانکہ مرد بھی مردوں کو اپنی مرضی سے ہانکتے رہے ہیں اور ہانک رہے ہیں۔
راشد صاحب
ہمارا اعتراض ناتجربہ کاری پر ہے اور یہ ہماری پوسٹ کا عنوان ہے مگر ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو ہانکنا زیادہ آسان رہا ہے۔
راشد کامران یقینا آپ ان لوگوں کی مخصوص ذہنیت کوسمجھ چکے ہیں!!!!!
🙂
مگر ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو ہانکنا زیادہ آسان رہا ہے۔
جاوید افضل ویسے یہ آپکے اسٹیٹمنٹ میں کچھ تبدیلی نہیں ہوگئی کچھ عرصہ پہلے تک تو یہ عورتیں تھیں جو مردوں کو ہانکے جارہی تھیں اپنی مرضی کے مطابق،بے چارے والدین کے نافرمان تھے توعورتوں کی وجہ سے،
دین سے بے بہرہ تھے تو عورتوں کی وجہ سے،
اخلاقی برائیوں میں مبتلا تھے تو عورتوں کیوجہ سے!!!!
🙂
Leave A Reply