آقا کے ملک کا فرد اگر ورلڈ بنک کا صدر بن کر اپنی محبوبہ شاہا رضا کو ناجائز اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نواز دے تو اس کی صدارت خطرے ميں پڑ جاتی ہے۔ اس کو اس کے منہ پر کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی محبوبہ کی ناجائز تنخواہ بڑھائی اور اپنے ایک ماتحت دوست کو اس کی ناتجربہ کاری کے باوجود زیادہ تنخواہ پر اپنے ساتھ ورلڈ بنک میں لایا۔ یہ شخص پال وولف وٹز، صدر بش کا انتہائی قابل اعتماد دوست ہے اور یہی وہ شخص ہے جس نے امریکہ کو عراق کی جنگ میں پھنسانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی شاید اب صدر بش بھی مدد نہ کرسکیں۔ یہاں یہ بھی بتانا شاید غلط نہ ہوگا کہ پال وولف وٹز ایک یہودی ہے۔ اسلئے کہ اس سے پہلے اگر مسلمان کسی تخریب کاری میں پکڑا جائے تو اسے عام تخریب کہنے کی بجائے مسلم تخریب کار کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر جان بولٹن کو بےایمان اور فراڈیا یہودی نہ کہا جائے تو موجودہ روش سے روگردانی ہوگی۔
اس کے برعکس اگر غلام اپنی قومی سٹیل مل کو اپنے عزیز کے ہاتھوں اونے پونے داموں میں بیچ دے اور اس سودے کو سپریم کورٹ غلط قرار دے دے تو پھر بھی وہ وزیر اعظم رہتا ہے بلکہ الٹا چیف جسٹس کیخلاف ناجائز اختیارات کے استعمال کا ریفرنس دائر کر کے رخصت پر بھیج دیا جاتا ہے۔ اگر وہ چیف جسٹس کے بیٹے اور اس طرح کے دوسرے افراد کی سرکاری طریقہ کار سے ہٹ کر ترقی کردے تو اسے کچھ نہیں کہا جاتا بلکہ الٹا اس کا الزام بھی چیف جسٹس پر لگایا جاتا ہے۔
آقا کے شہر کیلیفورنیا میں اگر پولیس امیگریشن کے حق میں نکلنے والی ریلی پر لاٹھی چارج کردے تو اس کے چیف کی تنزلی ہوجاتی ہے۔
اس کے برعکس غلام کے دارالخلافہ اسلام آباد میں اگر پولیس میڈیا پر بھی حملہ کردے تو کسی کو نہ تو برطرف کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ آجا کے ایک تھانیدار کو جس نے ڈیوٹی کے چکر میں اپنے افسروں کی بات مانی ہوتی ہے اسے قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے۔
آقا کے ملک کے شپریم کورٹ کے جج تاعمر جج رہتے ہیں اور انہیں صدر بھی اپنی مرضی سے معطل نہیں کرسکتا۔ ان ججوں کو صدر منتخب کرکے سینٹ کی کمیٹی کے روبرو پیش کرتا ہے اور اگر سینٹ کی کمیٹی صدر کے انتخاب کی منظوری نہ دے تو صدر کو نعم البدل کے طور پر دوسرا امیدوار پیش کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا آقا اس قابل بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مرضی سے اقوام متحدہ کا سفیر مقرر کرسکے۔ اگر سینٹ اس کے امیدوار کو مسترد کردے توآقا عارضی طور پر اسے ایک سال کیلیے سفیر مقرر کرتا ہے اس کے بعد اگر سفیر کی سینٹ سے منظوری مشکل ہوجائے تو سفیر کو واپس بلا لیا جاتا ہے۔
غلام اپنے ملک کے چیف جسٹس کو جب چاہے گھر بھیج سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دفعہ غلام اس کوشش میں اپنے آپ کو ایک مصیبت میں پھنسا چکا ہے۔ غلام جس کو چاہے سپریم کورٹ کا جج مقرر کردے اسے کوئی نہ تو چیلنج کرنے والا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے مقرر کردہ جج کی چھان بین کا اختیار کسی کو ہوتا ہے۔
انہی حرکات کی وجہ سے آقا ہمیشہ آقا اور غلام ہمیشہ غلام رہتا ہے۔
بہت پہلے وقتوں میںجب روم کے بادشاہ ہرقل کو مسلمانوں کے خلاف شکست در شکست ہونے لگی تو اس نے انے وزیروں اور درباریوں سے اس کی وجہ پوچھی۔ سارے مجمعے پر خوف کی وجہ سے سکوت طاری تھا کہ ایک بوڑھا ہمت کرکے اٹھا اور اس نے بتایا کہ مسلمان باعمل ہیں، کسی کو دھوکہ نہیں دیتے، ان کا خلیفہ اور غلام ایک جگہ پر بیٹھتے ہیں، ان کا خلیفہ اپنی عوام سے منہ نہیں چھپاتا، وہ بدکاری نہیں کرتے اور شراب نہیں پیتے۔ دوسری طرف ہمارا بادشاہ پردے کے پیچھے بیٹھا رہتا ہے، ہم لوگ بدکاریوں کا شکار ہوچکے ہیں، شراب اور ناچ گانے کی محفلیں ہمارا معمول بن چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہمیں مار رہے ہیں۔
اب اگر یہی اصول موجودہ دور پر لاگو کریں تو حقیقت الٹ نظر آتی ہے۔ اب مسلمان خرافات میں کھو چکے ہیں اور جمہوریت جس میں صدر تک بھی مواخذے سے مبرا نہیں غیرمسلموں کی میراث بن چکی ہے۔ مسلمانوں کے حقوق ان کے حکمران غصب کیے بیٹھے ہیں اور غیرمسلم ملکوں میں بلاتفریق انصاف مہیا کیا جاتا ہے۔
اب ہمارے ایمان اس قدر کمزور ہوچکے ہیں کہ ہم اپنی قوت کا منبع خدا کے بعد آرمی اور امریکہ کو قرار دیتے ہیں اور یہ تک نہیں سوچتے کہ ہم خدا کی واحدانیت میں دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہیں۔
1 user commented in " آقا اور غلام کی سوچ میں فرق ہوتا ہے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبہت پیارا!!! لکھا ہے!!!
Leave A Reply