وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک شہر میں جب دو سیاسی گروپ ایک ہی دن جلسے کرتے یا ریلی نکالتے ہیں تو وہی ہوتا ہے جو کراچی میں ہوا۔ دو متحارب گروپ آپس میں فائرنگ کرکے ایک دوسرے کو ہلاک کرتے رہے اور فوج اور پولیس دور کھڑی تماشہ دیکھتی رہی۔ حکومت دارلحکومت میں سیاسی جشن مناتی رہی اور کراچی میں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔
اگر اس حادثے کو ایک غیرجانبدار آنکھ سے دیکھا جائے تو کراچی کے فسادات کا قصور وار سب سے پہلے حکوموت اور اس کی حامی جماعت ایم کیو ایم کو ٹھرایا جائے گا۔ ایک تو ایم کیو ایم نے چیف جسٹس کے دورے والے دن اپنی ریلی کا اعلان کرکے سب سے پہلی غلطی کی، دوسرے حکومت نے کراچی کے امن و امان کو برقرار رکھنے کیلئے کوئی خاص بندوبست نہیں کیا۔ اس سے پہلے اس طرح کے فسادات میں سیاسی کارکن پولیس اور فوج کی گولیوں سے شہید ہوتے رہے ہیں یہ پہلا موقع ہے کہ متحارب سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے کے کارکنوں کا خون بےدردی سے بہایا۔ حکومت کو جب پتہ چلا کہ کراچی فسادات کی لپیٹ میں آچکا ہے تو پھر اسے اسلام آباد کی ریلی کینسل کرکے ساری توجہ کراچی کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کی طرف مرکوز کردینی چاہیے تھی۔ کراچی کے فسادات کو اس طرح عام سا دنگا فساد سمجھ لینا حکومت کی بے حسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
دوسری طرف حزب اجتلاف بھی اگر چاہتی یا پھر چیف جسٹس فسادات روکنا چاہتے تو وہ اپنا اپنا پروگرام ملتوی کرسکتے تھے۔ چیف جسٹس صاحب متحدہ کی ہٹ دھرمی کے بعد اپنا خطاب اگر ایک ہفتے کیلیے ملتوی کردیتے تو کراچی میں کل کے فسادات میں شہید ہونے والوں کی جانیں بچا سکتے تھے۔ حزب اختلاف اگر ہوش سے کام لیتی تو چیف جسٹس صاحب کو کراچی کا دورہ ملتوی کرنے پر مجبور کرسکتی تھی۔ جذب اختلاف اور چیف جسٹس کے اس اقدام کو پسپائی نہیں بلکہ کردار کی عظمت سمجھا جاتا اور ان کا قومی لیول پر مقام اور بلند ہوجاتا۔
فساد کو اگر روکنا ہو تو پھر دونوں فریقوں میں سے ایک کو جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا ہی پڑتا ہے۔ اگر دونوں فریق جوشیلے ہوں تو پھر لڑائی کا ٹلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ملک کے دانشوروں کی اکثریت کئی دن سے دونوں گروپوں سے درخواست کررہی تھی کہ وہ کراچی میں ایک ہی دن اپنی طاقت کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ سپریم کورٹ کے فل بینچ کی تشکیل کے بعد تو سب کا یہی خیال تھا کہ اب حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو سیاسی طاقت کے مظاہروں سے ہاتھ روک لینا چاہئے اور معاملہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ دانشوروں کو دونوں فریقین نے بیوقوف سمجھا اور اپنی سیاست چمکانے اور مخالف کو دبانے کا نادر موقع گنوانے کی کسی میں اخلاقی جرات پیدا نہ ہوئی۔ نذیر ناجی کی یہ بات حرف بحرف درست ثابت ہوئی کہ اب کی بار اگر تحریک چلی تونہ لاٹھیاں برسیں گی اور نہ اینٹیں، بلکہ گولیاں چلیں گی۔ کیونکہ اب دہشت گردی کی وجہ سے ہر گروپ کے پاس اسلحہ ہے اور مخالف گروپ گولی چلانےسے گریز نہیں کریں گی۔ یہی کچھ آج کراچی میں ہوا۔
کراچی میں جو پینتیس افراد شہید ہوئے ہیں وہ بیچارے غریب تھے مگر ان کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو اپنی اپنی سیاست چمکانے کی فکر پڑی ہوئی ہے۔ انہیں اس بات کی فکر نہیں کہ اگر کوئی شہری یتیم ہورہا یا کوئی عورت بیوہ ہو رہی ہے۔ غریب جائیں بھاڑ میں، سیاستدانوں کو تو اپنی سیٹ پکی کرنی ہے بس ،چاہے اسکیلیے سو پاکستانی مریں یا ہزار۔
اب بھی وقت ہے حکومت اور حزب اختلاف دونوں عقل سے کام لیتے ہوئے کراچی کے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کریں۔ اپنی اپنی خود غرضیوں کو پس پشت ڈالیں اور سب سے پہلے پاکستان کے نعرے کو حقیقی شکل دیں۔
47 users commented in " کراچی کے فسادات کا ذمہ دار کون؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackان فسادات کے ذمہ داران ہم سب ہیں میں اور آپ بھی ، کہ ایک طرف تو انسانوں کا خون بہ رہا تھا اور دوسری طرف ڈھول تاشوں پر رقص جاری تھا ۔ ۔ ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک خمار زدہ تقریر سننے کے بجائے لوگ ان سڑکوں پر اپنوں کو بچاتے مگر ۔ ۔ کیا کریں ۔ ۔ ہم تو طاقت کے نشے میں چور ہیں ۔ ۔ ۔
اور کراچی والے جھوٹے ہیں ، نہ تو وہاں کل بجلی گئی ، نہ ہی لوگوں نے گرمی سے تنگ آ کر ٹائیر جلائے ۔ ۔ ۔
یہ جوان کون تھے؟ ہمارے ہی جاننے والے تھے ، وہ ہم تھے جنہوں نے گولیاں چلائیں اور وہ بھی ہم ہی تھے جنہوں نے گولیاں کھائیں ۔۔ ۔سب قصور ہمارا ہے ۔ ۔ ہمیں قبول کر لینا چاہیے کہ ہم ۔ ۔ دجالوں کے ماننے والے ہیں ۔ ۔ ہم ہی ہیں جو فرعونوں کے ساتھی ہیں ، ہمیں اب مان لینا چاہیے کہ قارون کے رکھوالے ہم ہی ہیں ۔ ۔ کوئی اور نہیں ہے ۔ ۔ ۔
جب تک ہم لٹیروں اور دھوکے بازوں کو اپنا رہبر و رہنما مانتے رہے گیں ۔ ۔ ہم ایسے ہی حالات سے دوچار ہوتے رہیں گے ۔ ۔ ۔
اور اللہ ہم پر کبھی رحم نہیں کرے گا ۔ ۔ ۔
Sharam ka muqaam hay hum sab kay liyay, aur say ziyada sharam/bayghayrati ka muqaam hoga agar hum apni apni pasandeeda siyaasi partiyon ka dhol bajaanay say ab bhi baaz na aain.
میں حیران ہوں کہ فاشسٹ ایم کیو ایم اور ان کی سرپرست ارمی و ایجنیسیاں کب تک دھشت کا کھیل کھیلتی رہے گی
ہم کو منزل نہیں رہنما چاہیے
ایسا رہنما جس کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے جوانوں کے خون کی ضرورت ہے۔۔۔۔ کل پوری دنیا نے آج ٹیلیویژن کے کیمرے کی آنکھ سے دیکھا کے متحدہ کے کارکن کس طرح آزادی سے سرکاری سرپرستی میں جدید اسلحہ سے فائرنگ کر رہے تھے اور پوری دنیا نے تمام ٹی وی چینل کے ذریعے سُنا کے قائد تحریک کس طرح خطاب میں ڈرامہ کر رہا تھا۔۔۔ خدارا اب تو ہوش کے ناخن لوکب تک لندن میں عیاشی کرنے والوں کے لیے اپنے پیاروں کی لاشوں کو اُٹھائیں گے۔
کل جو کچھ ہوا وہ کوئی غلطی نہیں تھا بلکہ لادین وطن دشمن قوتوں کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا ۔ آپ کے علم میں نہیں کہ پاکستان کی عدالتِ عظمٰی کے پچاس سال پورے ہونے کی تقریبات منائی جا رہی ہیں جن کا پروگرام چیف جسٹس صاحب کے خلاف فوجی کاروائی سے پہلے کا بنا ہوا تھا ۔
دوسری بات آپ بھول رہے ہیں کہ افتخار محمد چوہدری صاحب اب بھی قانونی اور آئینی لحاظ سے چیف جسٹس ہیں اور اس کا اقرار جنرل پرویز مشرف صاحب بھی کر چکے ہیں یہ دعوتیں ملک کی بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز کی طرف سے دی جا رہی ہیں اور ان میں مہمانِ خصوصی چیف جسٹس صاحب ہی ہوتے ہیں اور حکومت کا کوئی کارندہ چیف جسٹس کو کسی آئنی اور قانونی عمل سے نہ تو روک سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو چیف جسٹس کے ایسے عمل میں کوئی رخنا ڈالنے کی اجازت ہے ۔ کراچی ایر پورٹ پر چیف جسٹس صاحب کو محصور رکھنا آئین اور قانوں کی دھجیاں اُڑانے سے زیادہ تو ہو سکتا ہے کم نہیں ہے ۔
ایک اور بات جو کہی جا رہی ہے کہ سیاسی رنگ دیا گیا ہے اس کو ہماری قوم کے جاہل تو قبول کر سکتے ہیں صاحبِ علم نہیں ۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ پولیٹِکس کا مطلب کیا ہے اور یہ لفظ کہاں سے آیا ؟ یہ یونانی زبان کے ایک لفظ پولِس سے بنا ہے جس کا مطلب ہے شہر یا ریاست ۔ اور پہلی بار پولِٹیکا کا لفظ ارسطو نے ریاست اور اس میں بسنے والوں کے حوالہ میں استعمال کیا ۔ جو بھی بات یا عمل یا چیز شہر یا ریاست سے یا اس میں بسنے والوں سے متعلق ہو گی وہ پولیٹِکس کہلائے گی ۔ عدالت اور جج کا تعلق براہِ راست ریاست یا شہر اور ریاست یا شہر میں بسنے والوں سے ہوتا ہے تو پھر عدالت یا جج پولیٹِکس سے باہر کیسے رہ سکتا ہے ؟
میں اجمل صاحب کے تبصرے سے مکمل متفق ہوں صرف یہ کہنا چاہوں گا کے کبھی کبھی جنگ جیتنے کے لیے پسپا بھی ہونا پڑتا ہے اگر اپوزیشن جماعتیں اور چیف جسٹس ایک دن یا دو دن کا توقف کر لیتے تو شاید یہ سانحہ نہ ہوتا۔ لیکن اس بات کا بھی مجھے پورا یقین ہے کہ اگر وہ دو دن کے بعد بھی آتے تو فوج کے پالتو کوئی نہ کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈھ نکالتے کے خون خرابہ ہو تاکہ پاسپورٹ کی سرخی ماند نہ پڑنے پائے اور پاپا کا اقبال بلند رہے۔
میرا خیال ہے کہ یہ الطافی سرطان کراچی کو چاٹ کررہے گا تاوقتیکہ کراچی کے عوام الطافی لعنت سے چھٹکارا نہ پالیں
agar CJ apna dora mansookh kartay to mqm bhi wohi din choose karti jab nai date rakhi jaati.
میں مہر افشاں صاحبہ اور عبداللہ صاحب کے جوابات کا منتظر ہوں ۔ ۔ ۔ جنہوں نے ایسی باتیں کیں تھیں اسی فورم پر کہ جیسے ہم اندھے گونگے اور بہرے ہیں ۔ ۔ ۔
آج ان لوگوں کا جواب چاہیے ۔ ۔ ۔
بی بی سی کے حسن مجتبییٰ کا یہ تبصرہ ایم کیو ایم کے فاشزم اور کل کے قتل عام میں اس کے گھناونے ہاتھ کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔
“ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان میں ایک ایسی جماعت ہے جس نے اپنے عمل سے پاکستانی کلچر اور سیاست میں اصطلاحات و الفاظ کے معنی یکسر تبدیل کر کے رکھ دیئے ہیں۔
کبھی آپ نے اس پر غور کیا ہے کہ الفاظ: ’پرامن، مظلوم، پریس، پریس کانفرنس، پریس کلب، پریس آزادیاں، عدلیہ، عوام، قوم، جہموریت، یا کراچی، سندھ اور پاکستان‘ جب ایم کیو ایم کے رہنماؤں اور کارکنوں کی زبان اور ہاتھوں میں پہنچتے ہیں تو ان کے معنی، مفہوم و شکلیں تک تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہی گزشتہ سنیچر ایم کیو ایم کی پرامن ریلی اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی کراچي میں آمد پر دیکھنے میں آیا۔
ایم کیو ایم، صوبہ سندھ میں حکومت میں ہے، صوبے کے گورنر اور وزیر داخلہ بھی اسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، اور اس جماعت نے مہاجر فوجی صدرکی حمایت میں جسطرح کراچی کے سڑکیں حزب مخالف کے کارکنوں اور عام شہریوں کے خوں سے رنگ دی ہیں اس سے یحییٰ خان کی حمایت میں الشمس و البدر والے یاد آتے ہیں جنہوں نے ڈھاکہ کی سڑکیں بنگالیوں اور عوامی لیگ والوں کے خون سے رنگي تھیں۔ ایم کیو ایم نے، ایک دفعہ پھر اپنی ایسی پرامن گاندھی گیری سے ثابت کردیا کہ وہ پاکستانی فوج کی دسویں کور ہے۔
چاہے حزب مخالف کے کارکن تھے، وکلاء یا عام شہری جو چیف جسٹس کے استقبال کو آئے تھے انکا بہایا ہوا خون (ساحر کے لفظوں میں) پوچھ رہا ہے :
کیا قوم و وطن کی جے گا کر مرتے ہوئے راہی غنڈے تھے
جو دیس کا پرچم لے کے اٹھے وہ شوخ سپاھی غنڈے تھے
جو بار غلامی سہہ نہ سکے وہ مجرم شاہی غنڈے تھے
یہ کس کا لہو ہے کون مرا، اے رہبر ملک و قوم بتا!
اگر یہ تنظیم اٹھارہ سو ستاون میں ہوتی منگل پانڈے پر پہلی گولی انہوں نے چلائی ہوتی۔
ان لوگوں کو کوئی حیرت نہ ہوئي ہوگی جو جانتے ہیں کہ اس جماعت کا جنم ہی سندھ کی جمہوری امنگ کو منتشر کرنے کیلیے ہوا تھا۔ پر مجھے حیرت ہے پاکستان کی سب سے پڑھی لکھی آبادی کے نظر انتخاب پر! کب تک اے ہمسخنو، کب تک دلوں، جانوں اور ذہنوں کا خراج!“
بحوالہ
http://www.bbc.co.uk/blogs/urdu/2007/05/post_187.html
کراچی کا سب سے اہم مسئلہ اسلحہ کی فراوانی ہے ۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم کا قصور تو ہے ھی لیکن دیگر جماعتوں کا بھی ھاتھ ہے۔ اگرچہ برابر نہ سہی لیکن بہرحال حصہ ضرور ہے۔ ایم کیو ایم ایک ردعمل کے طور پر وجود میں آئی اکثر لوگ ان عوامل سے بالکل ہی صرف نظر کر جاتے ہیں۔ لسانی تعصب کی بات کرنا ٹھیک نہیں ہے لیکن کوئی وجہ تو ہے جو لوگوں نے اس جماعت کا ساتھ دیا۔ بہتر ہے کہ ملک کے ھر طبقے کو اس کا حق دیا جائے ایسا نہ ھو کہ بلوچستان سے بھی پنجابی ہی آئے اور پنجاب سے بھی پنجابی۔
ایم کیو ایم بہرحال ایک عفریت ہے جس نے سب سے زیادہ نقصان انہی لوگوں کو پہنچایا جس نے انکا ساتھ دیا۔ لیکن اب بھی اکثریت کے نزدیک کوئی متابادل نہیں۔ تنقید کرنے والوں کو بھی یہ چاہئے کہ انصاف سے کام لیں اور ان چیزوں پر غور کریں جس نے ایم کیو ایم کو جنم دیا ایک مثال میںدے دیتا ہوں کیا آپ کو پاکستان کے کسی اور حصے یونیورسٹی میں لسانی جماعت نظر آئیگی جیسا کہ کراچی یونیورسٹی میں پنجابی اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن ہے؟ اور ایک کالج پر تو اس جماعت کا مکمل قبضہ ہے۔۔ایسی چیزیں ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔
احمد کل کی لڑائی نہ لسانی تھی نہ مذہبی کل ایم کیو ایم کی ساری توجہ ڈیڈی پاکستان آرمی سے اپنی وفاداری ظاہر کرنی تھی۔ کل نہ تو کسی نے ایم کیو ایم کی حیثیت کو چیلینج کیا تھا نہ کسی نے ایم کیو ایم سےکوئی مقابلہ کیا تھا بلکہ اصل وجہ یہ تھی کے ایم کیو ایم کو ایک خوف تھا کہ کہیں چیف جسٹس اتنا بڑا مجمعہ جمع نہ کرلیں کے لوگ ایم کیو ایم کی مقبولیت پر سوال اٹھانے لگیں۔ فرض کرلین ایم کیو ایم اپنی ریلی میں بیس لاکھ لوگ اکھٹے کرلیتی ہے۔۔ کراچی کی آبادی ایک کروڑ کو چھوتی ہے۔۔ یہ بتائیں باقی اسی لاکھ افراد کا کیا ہوگا؟ انہیں کوئی حق ہے کہ نہیں؟ باقی رہا لسانیات کا مسئلہ یہ کراچی ہی نہیں دنیا کے ہر کاسمو پولیٹن شہر کا مسئلہ ہے مگر ایم کیو ایم صرف کراچی ہی کی بدنصیبی ہے۔
کل کے واقعات کی تمام زمہ داری ایم کیو ایم اور حکومت پر ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔۔ اصل میں کچھ لوگ کراچی کے عوام کے انتخاب پر حیران ہیں کہ وہ اس جماعت کو سپورٹ کیوں کرتے ہیں، میرے کمنٹس اس کا جواب تھے۔
کل کے تشدد میں ایم کیو ایم کا ھاتھ ہے ہی لیکن اے این پی اور پی پی کے جیالے بھی گولیاں چلاتے دیکھے جا سکتے ہیں، بے شک ایم کیو ایم اک بد نصیبی ہے ۔ بلکہ ساری لسانی تنظیمیں ہی بد نصیبی ہیں، اصل حل یہ ہے کہ جہاں زیادتی ہو رھی ہے اس کو تسلیم کیا جائے اور کسی کو دبانے کی کوشش نہ کی جائے
آپ کی بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کیونکہ لائیو کوریج سب کے سامنے ہے اور پاکستان میں اسلحہ تو خیر ہر سیاسی جماعت کے پاس ہے۔ لیکن لاشوں کی سیاست میں کوئی ایم کیو ایم سے نہیں جیت سکتا جہاں اسکے وزراء ہلاک ہونے سے پہلے ہی ہلاک ہونے والوں کا بین ڈالنا شروع کردیتے ہیں۔۔
سب سے صحیح بات اظہر الحق صاحب نے کی ہے ان سب چیزوں کے ذمہ دار ہم ہیںاور صرف ہم۔ یہ ہم ہی ہیںجو اپنے ووٹ بیچ کر ایسے لوگوںکو اقتدار دلواتے ہیں جو خود بکے ہوئے ہیں، اپنے نفس کے ہاتھوں۔۔۔
ان سب خامیوںکا تو ہمیںایک عرصہ سے پتا ہے۔ ظلم کی اس چکی میںتو سب پس رہے ہیں، لیکن اس کے حل کی کوئی بات نہیںکرتا۔۔۔ دیکھیںجب اپنا گھر جل رہا ہو تو آپ اس بات پر بحث نہیںکریں گے کہ آگ کیسے لگی، بلکہ اُس وقت صرف گھر کو بچانے کی فکر کریں گے۔
میںسمجھتا ہوں ہمیںایک انقلاب کی ضرورت ہےجو نچلی سطح سے لایا جانا چاہئے۔ اس سلسلہ میںیہی درخواست ہے کہ اس سلسلے میںبھی ایک ٹاپک شروع کیا جائے کہ ان تمام مسائل کا کیا حل ہے اور ان پر قابو پانے کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں۔
اس صورت حال سے جس میں کہ پاکستان کے عوام مبتلا ہیں صرف ایک ہی حل ہے۔ پاکستان کے عوام اپنی حثیت میں اتحاد کریں اور منظم ہوکر موجودہ انتظام کو اپنے قابو میں کرلیں ۔ مثلا
تمام سپاہی جی ایچ کیو کو بشمول اپنے افسران کے قابو کرلیں۔ ارمی والے اپنی چھاونیوں میں، نیوی والے اپنے ادارے میںوغیرہ
تمام مزارعے اور مزدور اپنے اپنے اداروں و جاگیر پر قابض لوگوںکو گرفت میں لے کر جاگیر، کارخانہ و ادارہ پر قابو کرلیں
غرضیکہ ہر جگہ موجود عام فرد انتظام کو اپنے قابو میں کرلیں۔ اس سے وقتی طور پر تیکنیکی افراد کی کمی ہوجاے گی مگر اس عمل کے نتیجے مین ایک قیادت ہر ادارے میں اپنے طور پر ابھرے گی اور وہ موجودہ تیکنیکی افراد کو ہی نیے منشور اور معاہدے پر کام کرنے کے لیے رضامند کرلے گی۔
یہ سب کرنا فی الحال ممکن نہیںہے کیونکہ نظریاتی تربیت کی کمی ہے مگر حل یہ یہی ہے۔
بھائی نواز یہ حل نہیں ہے آپ تو خانہ جنگی کا نسخہ تجویز کر رہے ہیں۔
کسی نے مجھ سے اور مہر افشاں صاحبہ سے جواب مانگا تھا آج کل کے حالات پر،تو مہر صاحبہ تو ایک عرصہ پہلے ہی آپ لوگوں میں بھرا تعصب دیکھ کر مایوس ہو گئی تھیں اور انھوں نے آپ لوگوں کو پڑھنا بھی چھوڑ دیا تھااور یوں بھی ان کی مصروف زندگی انہیں اس فضولیات کی اجازت نہیں دیتی،البتہ میرے سامنے زکر ہوا تو مینے سوچا دیکھوں تو سہی آخر یہ کون لوگ ہیں،
اور دوبارہ لکھنے پر بھی مینے ہی انہیں مجبور کیا تھاجس کے لیئے میں ان سے شرمندہ ہوں،
اب آتے ہیں آج کل کے حالات کی طرف،متحدہ کی سیاست بتیس دانتوں کے بیچ میں زبان جیسی ہے اسٹیبلشمنٹ سدا ناراض رہی کہ پچھلے ساٹھ سال سے اس ملک کو یرغمال بنایا ہوا تھاوہاں حقوق کی بات کرنے والے کہاں سے پیدہ ہوگئے اور صرف کہا ہی نہیں دو ٹکے کے نچلے طبقہ کو برابر میں لا بٹھایا،سیاسی جماعتیں اس لیئے ناراض کے انکا ووٹ بنک توڑ ڈالا،ایجینسیوں نے کس قدر محنت کرکے ایم کیو ایم کو دہشت گرد دکلیئر کیا اور پچھلے سات سالوں میں ایم کیو ایم نے انکی ساری محنت پر پانی پھیر دیااور ان کی تحریک دوسرے صوبوں میں بھی اپنا سر اٹھانے لگی چنانچہ موقع تلاش کیا جاتا رہا کہ کسی طرح اسے دوبارہ دہشت گردکے منصب پر فائز کیا جائے اور آخر انہیں یہ موقع مل ہی گیا،اس سازش کے پیچھے کون ہے اس کا اندازااعتزاز احسن اور مخدوم امین فہیم اور فاروق ستار کی پریس کانفرنس سے ہوجاتا ہے لوگوں کی باڈی لینگوج بتا رہی ہے کہ کون اس خون خرابے سے خوش اور مطمئن ہے اور کون پریشان،امین فہیم اور انکے حواریوں کی تو بانچھیں ہی کھلی پڑ رہی تھیں اور وہ کسی طرح اپنی خوشی کو چھپا نہ پارہے تھے،جبکے فاروق ستار کے چہرے پر اڑی ہوائیاں انکے اندرونی خلفشار کا پتہ دے رہی تھیں مگر یہ سب دیکھنے کے لیئے آنکھوں پر بندھی تعصب کی پٹی اتارنا پڑے گی،کیا ایم کیو ایم اتنی ہی بے وقوف ہے کہ ایک میڈیا کے آفس پر اپنے لوگوں سے فائرنگ کروائے بمع اپنے جھنڈوں کہ تاکہ وہ اسکی مووی بنا کر ساری دنیا کو دکھا سکیں؟
یہاں رہنے والے وہ پنجابی اور سندھی جو پڑھے لکھے ہیں اور انکا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوتا کہ جن کا نہ تعلیم کچھ بگاڑ پاتی ہے اور نہ دین،اس لیئے تعصب سے پاک ہیں انکا یہی کہنا ہے کے ایجینسیاں اپنا کام کر گئیں اور سات سال میں جو ساکھ ایم کیو ایم نے بنائی تھی اسے انھوں نے اگر ختم نہیں کیا تو اسکے اثرات کو محدود ضرور کردیا ہے اب دوسرے صوبوں کے لوگ پھر سے سوچ بچار میں پڑ گئے ہیں اور یہی انکا مقصد بھی تھا اردو بولنے والے تو ان ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف ہیں اور جس طرح آپ لوگوں کے دل سے اردو بولنے والوں اور ایم کیو ایم کے خلاف بغض ختم نہیں ہو سکتا اسی طرح اردو بولنے والوں کے دل سے ایم کیو ایم کے لیئے محبت اور ہمدردی ختم نہیں ہو سکتی کیونکہ آپنے صرف سنا ہے اور ہم نے ظلم سہا ہے،
کیونکہ آج یہ میرا آخری تبصرہ ہے اس لیئے میں اور بھی سوالوں کا جواب دینا چاہوں گا،ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ متحدہ فوج کے ساتھ کیوں ملی ہوئی ہے،بے نظیر اور نواز شریف نے فوج کے ساتھ مل کر ہی متحدہ کے خلاف اپریشن کیا تھا اس لیئے انھوں نے بڑے دشمن سے ہی ہاتھ ملانے مین بہتری سمجھی حالانکہ یہ شیر اور بھیڑ والی دوستی تھی جس کا ایک ثبوت اس طرح ملا کہ سندھ حکومت مدد طلب کرتی رہی اور پولس اور رینجرز کے کانوں پر جوں نہ رینگی جبتک کے اسلام آباد سے آرڈر نہ آگئے اور ایم کیو ایم جو کراچی کے لوگوں کو پولس مین بھرتی کرنے کا پروگرام بنا رہی تھی فلحال وہ کھڈے لائن لگ گیا ہے،اور رینجرز جو یہاں مستقل بنیادوں پر تعینات ہونا چاہتے تھے ان کی مراد بر آئی ہے،دیکھیں تیسرا آپریشن کلین اپ کب شروع ہوتا ہے خدانخواستہ،
آپکے ایک سابقہ اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے نے تو بتا ہی دیا ہے کہ الطاف نے طلعت حسین کو مروانے کے آرڈر جاری کیئے ہیں،(جھوٹوں پر خدا کی لعنت)،
اب اسے مروا کر اس کا الزام متحدہ پر ڈال کر میڈیا کو متحدہ کے خلاف کر کے بھی آپریشن شروع کیا جاسکتا ہے آخر پہلے بھی تو یہی سب کیا گیا تھا ،نیا جال لائے پرانے شکاری،
اب سوال یہ اٹھے گا کہ ایم کیو ایم حکومت چھوڑ کیوں نہی دیتی جو کہ لوگوں کی دلی خواہش بھی ہے،مگر اس کے آگے کنواں ہے اور پیچھے کھائی، حکومت چھڑ کر تو زیادہ آسانی سے کلین اپ کا شکار ہو سکتی ہے جبکہ حکومت میں رہتے شائد بچت کا کوئی چانس مل سکے،
الطاف حسین پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ لندن میں عیش کر رہا ہے الطاف وہ واحد لیڈر ہے جس نے اپنی قوم سے کچھ لیا نہیں بلکہ دیا ہے اس نے اپنا اور اپنے بھائی کا مکان بھی اپنی تحریک کے نام کر دیا ا ہے،
اس نے شروع سے آج تک کبھی کوئی سیاسی عہدہ قبول نہیں کیا جبکہ دوسرے ان عہدوں کے لیئے مرے جاتے ہیں،اس کا کسی فارن بنک میں اکاؤنٹ نہیں،
اس نے صاف کہا ہے کہ بے نظیر اور نواز شریف یہ لکھ کر دیں کہ ہم وزیراعظم نہیں بننا چاہتے تو ہم حکومت چھوڑ کر انکا ساتھ دیں گے ان لوگوں کے پاس اتنا بڑا موقع تھا جھوٹ بول کر بھی متحدہ کو حکومت سے الگ کر سکتے تھے مگر وہ تو خواب میں بھی یہ بات نہیں سوچ سکتے ان کی زندگی کا تو مقصد ہی یہی ہے،جسٹس افتخار کو بھی یہی آفر کی گئی کہ ایل ایف او کے طوق کو گلے سے اتار پھینکیں استفعی دیں متحدہ آپکا ساتھ دے گی مگر وہ جو ایک مخصوص سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں بھلا ایسا کیسے کر سکتے ہیں،
اور رہی مشرف یا فوج کی بات تو آپکے اجمل صاحب تو بتا ہی چکے ہیں کہ فوج کے لوگ ان سے کہتے ہیں کہ آپ ہمارہ ساتھ دیں تو ہم اسے ہٹا دیں گے یعنی متحدہ کی بات درست ہے کہ یہ لوگ صرف چہرہ بدلنا چاہتے ہیں فوج کا سیاست میں مکمل انفلوئنس ختم کرنا نہیں چاہتے ہیں،مشرف بھی قاف والوں کو ہی سپورٹ کر رہا ہے اور اردو بولنے والے اس پر بھی بھروسہ نہیں کرتے کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ ہے مگر ابھی وہ کھل کر سامنے نہیں آیا ہے متحدہ کی مخالفت میں اس لیئے لوگ بھی تیل دیکھ رہے ہیں اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں،
رہا بی بی سی کا سوال تو وہ ایک یہودی ادارہ ہے اور برا نہ مانیں تو پرو پی پی پی بھی ہے اور حسن مجتبی ایک ایسا سندھی ہے جو سندھو دیش کے خواب دیکھتا ہے،
میں دل سے یہ دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ ظالموں کے مقبلے میں مظلوموں کو فتح مبیں عطا فرما اور ظالموں کو نیست و نا بود کردے آمین،
میں عمومآ سیاسی بحثوں میں نہیں پڑتا گرچہ سیاست میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ عبداللہ ساحب نے جو باتیں کیں وہ ایک دردمند دل سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں لیکن میرا صرف ایک سوال ہے: کیا ایم کیو ایم اپنی ریلی کسی اور دن (کہ سال میں 365 دن ہیں اور سارا کراچی ہی ان کا ہے) نہیں کر سکتی تھی؟ مجھے صرف اس سوال کا جواب چاہیے! باقی رہی بات اسٹیبلشمنٹ کی اور ایجنسیوں کی تو معاف کیجیے گا کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان تین لوگوں کیلئے بنا تھا اور انہی تین نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا اور وہ ہیں پنجابی، مہاجر اور فوج۔ اگرچہ مجھے اس سے اختلاف ہے لیکن مقصد ایک نقطہ نظر بیان کرنا تھا۔ رہی بات اردو کی اور اردو سپیکنگ کی تو بھائی ہم نے تو بنگلہ کو قومی زبان نہ مان کر پاکستان کو آدھا کر دیا۔ سندھی، پشتو، پنجابی وغیرہ اردو سے کہیں زیادہ قدیم اور معروف اور مستعمل زبانیں ہیں۔
بات لبمی ہو گئی، کہنا صرف اتنا ہے کہ فرق کرنے پر آئیں تو بہت دیواریں ہیں اور مٹانے پر آئیں تو سب انسانوں کا خون سرخ ہی ہوتا ہے۔
بحث کو لمبا کرنے سے بہتر ہے کہ آج کے بعد ہم کراچی کے حالات کے بگاڑ کی ذمھ داری کا تعین لکھنے والوں اور الیکڑونک میڈیا پر مباحث میں حصہ لینے والوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ امید ہے ہم سب لوگ اکثریت کی رائے کو تسلیم کرنے میںشرم محسوس نہیںکریں گے۔
افضل آپ کی بات سر آنکھوں پرکے بحث کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں لیکن کم از کم اتنی تو اجازت دیں کے یہ جو مظلومیت کا لبادہ اوڑھے درد مندانہ تقریریں کرتے پھر رہے ہیں انکو بتایا جائے کے فارق بھائی کے چہرے پرہوائیاں اسلیے اڑی ہوئی تھیں کے انکے اصلی چہرے دنیا نے دیکھ لیے تھے اور ان کو اس خوش فہمی سے نجات دلائی جائے کے سارے اردو بولنے والے متحدہ کے ساتھ ہیں۔
آپ بھی پابندیا لگا دیں گیں تو آدمی بات کہاں کرے گا؟ ان اخبارات میں جن کی متحدہ کا نام لیتے جان جاتی ہے اور اسے “ایک لسانی تنظیم“ کہتے ہیں؟ اس میڈیا میں جس کو ہر تخریب کار “نا معلوم“ نظر آتا ہے چاہے وہ رینجرز کے گاڑی کی اوٹ سے فائرنگ کرے؟ ایک بلاگز ہی تو ہیں جہاں انسان ہر چیز کو اس کے اصل نام سے پکارتا اور لکھتا ہے۔
راشد صاحب
آپ کی بات بجا ہے کہ بلاگز ایسی جگہ بچی ہے جہاں ہم اپنے دل کی بات کھل کر کہ سکتے ہیں۔ ہم نے پابندی نہیںلگائی بلکہ ہمارا مطلب تھا کہ آئیں اب اس سے آگے بڑھیں
ہم ایم کیو ایم پر اتنا کچھ لکھ چکے ہیں کہ اب جو بھی بات کرے گا وہ پرانی باتوں کو دہرائے گا۔ یہی کچھ ہم نے عبدالللہ صاحب کے جواب میں دیکھا ہے۔
ایک با کا جواب ایم کیو ایم اور حکومت گول کرگئی کہ اسی روز ریلی نکالنے کی کیا ضرورت تھی؟ باتوں کو گول کرنے پرا ایک پوسٹ ادھار ہے ہم پر۔ انشااللہ جلد ہی لکھیںگے۔
افضل شکریہ ۔۔ نئی پوسٹ کا انتظار رہے گا اور اس میں یہ نہ بھولیے گا کہ نہ صرف اسی دن بلکہ روایات سے ہٹ کر کہ متحدہ زیادہ تر ریلیز شام کے اوقات میں رکھا کرتی تھی اس ریلی کو خصوصی طور پر ایسے وقت رکھا گیا جب کے بار کی تقریب ہونی تھی۔۔
سوچا تھا کہ عبد اللہ صاحب کی باتوں کا جواب دوں جو بلا وجہ سارے اردو بولنے والوں کی طرف سے اپنے خیالات پیش کر گئے لیکن چلیں اگلی پوسٹ پر صحیح
میں بھی احمد سے متفق ہوں ۔ تمام اردو بولنے والے ہرگز متحدہ کے ساتھ نہیںہیں۔ خود میں الطاف کے علاقے عزیز اباد سے تعلق رکھتا ہوںاور اردو اسپیکنگ ہوں۔ یہ جانتا ہوں کہ ان کے گن پوانٹ پر کوی بول نہیں سکتا۔
جس گھٹن سے گھبرا کر لوگ متحدہ کے ساتھ ہوے تھے وہ اب موت بن کر ان کے سامنے ہے
عبداللہ اگر ظلم سہنے والے لوگ ہیں آپ تو معافی کس بات کی مانگ رہے ہیں ؟ دوسرا اگر اتنے ہی حق پرست ہیں تو پھر آخری پوسٹ کیوں کر رہے ہیں ؟ چلیں ہم تو متعصب ہیں کیا عالمی میڈیا اندھا ہے ؟ جو یہ “فیک وڈیوز“ دکھا رہا ہے ؟ اور بی بی سی کے حسن مجتبٰی نے تو شاید تعصب کی انتہا کر دی ۔ ۔ ہے نا!!
اور حق کی آواز ہر دور میں بلند ہوتی رہی ہے ، کیا جی ایم سید ، غفار خان، اکبر بگٹی اور بنگلہ بندھو جیسے لوگ بھی خود کو حق کے داعی نہیں کہتے رہے ؟ کیا سقراط سے لیکر چومسکی تک لوگ منطقی نہیں بنتے رہے ۔ ۔ ۔ مگر کسی نے وہ نہ کیا ۔ ۔ جو ایم کیو ایم نے کیا ہے ۔ ۔ جی ایم سید لاکھ برا سہی مگر سندھ اسمبلی سے قیام پاکستان کے حق کے لئے آواز اٹھانے والا بندہ تھا ۔ ۔ ۔ سرحدی گاندھی نے بھی اے این پی بنا کر پاکستان کو مانا تھا ، اکبر بگٹی نے بھی وفاق سے انکار نہیں کیا تھا ، اور مجیب الرحمٰن کو بھی شاید موقع ملتا تو شاید ہم یوں رسواء نہ ہوتے خیر ۔ ۔ ۔ یہ سب ماضی تھا ۔ ۔ آج کی بات کرتے ہیں ۔ ۔ اگر ان بیان کردہ لوگوں نے کچھ غلطیاں کیں تھیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ وہ غلطیاں الطاف بھائی لندن والے بھی کریں ۔ ۔ ۔ اور ہاں ایک بات اور کہوں ۔ ۔ کہ یہ سب لوگ مرتے دم تک اپنے لوگوں کے ساتھ اپنی زمین پر تھے ۔ ۔ ۔ بس یہ فرق ہے قوم کے لیڈر میں اور لیڈر کی قوم میں ۔ ۔
ایم کیو ایم کے الطاف صاحب اس وقت قوم کے لیڈر نہیں ہیں بلکہ ایم کیو ایم لیڈر کی قوم ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ ہی غلط ہے یہ ہی غلطی مسلم لیگ میں نواز شریف اور چودھری برادران ، اور پیپلز پارٹی میں بے نظیر اور جماعت اسلامی میں قاضی کی ہے ۔ ۔ ۔
اور ہاں میں ایم کیو ایم کے ایک نعرے سے پہلی بار متفق ہوا ہوں
ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے ۔ ۔ ۔ کیونکہ منزل بنا رہنما کے ملتی نہیں ۔ ۔ ۔ اور منزل پر پہنچنے کے بعد رہنمائی چاہیے ، ۔ ۔ ۔ ۔
ویسے اس چشم پرنم تقریر کے بعد آج عبداللہ صاحب سے یہ ضرور پوچھنا چاہئیے کہ فاروق ستار نے “آج ٹی وی” پر حملے کی معافی کیوں مانگی ہے؟
ایک ٹیکسی ڈرایور سے خود ساختہ جلا وطن مظلوموں کے “ساتھی“ تک کا سفر۔ ٹیلیگراف کی زبانی۔
Running Karachi – from London
By Isambard Wilkinson in Karachi and Damien McElroy
Last Updated: 1:46am BST 15/05/2007
The man in charge of Pakistan’s largest city, Karachi, was at his usual command-and-control post at the weekend: a sofa in north London.
Altaf Hussain, leader of MQM, commands Karachi from his office in London
MQM leader Altaf Hussain considers the strife in Pakistan from his office in London
As his fiefdom descended into brutal violence, with the deaths of at least 40 people reported amid the worst political bloodshed Pakistan has witnessed in years, Altaf Hussain directed his followers by telephone from a safe place more than 5,000 miles away.
His headquarters, or “international secretariat”, is not in the Pakistani port city but housed in a red-brick office block opposite a supermarket on Edgware High Street.
Followers of Mr Hussain, 53, whose Muttahida Quami Movement (MQM) is allied to President Pervez Musharraf’s government, were accused yesterday of playing a bloody part in the clashes with opposition supporters.
But in an interview with The Daily Telegraph, Mr Hussain insisted that they held a “completely peaceful gathering” and that it was opposition supporters who provoked the violence, in which at least nine MQM activists were killed. When reports of the killings reached Edgware on Saturday morning, Mr Hussain was preparing to address the party by telephone. Three hours later, he defied what he called “agitators” by leaning over the loudspeaker of his phone to speak to his supporters.
advertisement
Opposition activists loyal to Benazir Bhutto were staging their own anti-government rally when the violence began.
But Mr Hussain said: “It was a completely peaceful gathering by MQM supporters that was targeted by a collaboration of three other parties.”
He said he had called for peace. But as tens of thousands of his followers sat cross-legged in reverential silence as they listened to their leader’s telephonic address relayed by loudspeakers, in another street armed MQM activists fired directly into the crowds of opposition protesters.
Mr Hussain, who founded the MQM in 1984 specifically to represent the Mohajirs – Muslim refugees from India – has lived in Britian since arriving in 1992 for a kidney operation. He has since become a British citizen, while his party governs five cities and the populous Sind province.
Protesters in Multan burn an effigy of Gen Musharraf
Protesters in Multan burn a Musharraf effigy
He claimed yesterday that his party is the only force to stand up for secular values in Pakistan. “MQM is the only party against all sorts of religious fanaticism in Pakistan,” he said. “It is these groups and their influence, which is all around, that is stopping me coming home. A sizeable majority of the army even have been brainwashed to supporting what the Taliban wants to impose.”
Mr Hussain, who spent part of yesterday speaking on the telephone to Gen Musharraf, warned Pakistan’s leader not to make any deals with exiled leaders, such as his rival Miss Bhutto, that would see the military ruler resign from the army.
Pakistan faces a referendum on Gen Musharraf’s rule before the end of the year and he has promised to abandon his uniform before the poll.
“The situation in South Asia does not allow Pervez Musharraf to take off his uniform, for without it he will have no power at all. Because of activities next door in Afghanistan as well as our own country, the Taliban is growing very strong,” Mr Hussaid said.
“He is doing his level best to fight these groups. Musharraf is a very brave man. Only he can prevent the Talibanisation of Pakistan.”
Unlike the former prime ministers Nawaz Sharif and Miss Bhutto, Mr Hussain is an exile whose party has consolidated its grip. But Karachi remains tense.
The MQM’s most senior leader in Pakistan, Farooq Sattar, said: “The opposition wants to show that Karachi does not belong to the MQM. We have accepted the challenge.”
Mr Hussain is one of the Indian subcontinent’s more unusual leaders. His political addresses by telephone have been known to last up to four hours, while a Western diplomat in Pakistan described the MQM as “something out of Chicago – nobody leaves the party”.
While Mr Hussain promotes the party as a secular cause and courts the middle-class vote, his supporters are known to extort a goonda, or thug, tax from Karachi businesses.
Mr Hussain, who once drove a taxi in Chicago for a living, micro-manages the MQM with acute attention to detail.
The movement runs on Greenwich Mean Time with his ministers in Pakistan fielding hour-long telephone calls into the early hours.
Mr Sattar admitted that his party’s image had been tarnished by “accusations of fascism and terrorism” but said this was a “misperception”.
Some observers argue that in the tough city of Karachi the MQM has given a vulnerable group protection and a voice.
After Mr Hussain left Pakistan, an army operation was launched against his party during which hundreds of its workers were either killed by police or were arrested on charges of terrorism. He has no plans to return to Pakistan.
When asked why Mr Hussain was not deported to Pakistan before he was granted citizenship, a British diplomat said: “He has not committed a crime on British soil.”
http://www.telegraph.co.uk/news/main.jhtml?xml=/news/2007/05/14/wpak14.xml
ایک ضروری بات رہ گئی تھی سوچا وہ بھی لکھ دوں اس لیئے مجبورا“ایک بار پھر آپکا بلاگ کھولا معلوم ہوا کہ آپ نے بحث ابھی تک جاری رکھی ہوئی ہے،اور الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے،
سب سے پہلے وہ بات جو میں کہنا چاہتا تھا جوآپکے، آصف صاحب کےاور دیگر لوگوں کے سوال کا جواب بھی ہے،جی متحدہ کو 11 مئی کو ریلی نہیں نکالنا چاہیئے تھی، اس ریلی سے جسے فائدہ ہوا وہی اس سازش کا خالق بھی ہے، ظاہر ہے کہ ایم کیو ایم کو تو صرف نقصان ہی ہوا ہے،اپوزیشن کے چیلنج کو وفاق نے ایم کیو ایم پر مسلط کیا (ایم کیو ایم کو قاف لیگ کے کیلیبر کی کمینگی، میں اسے سیاست نہیں کہوں گا تک پہنچنے میں ابھی وقت لگے گا)اور وہ اس جال میں پھنس گئی دوسرے وہ سمجھ رہے تھے کہ ایک پر امن ریلی کے بعد اپنے گھروں کو چلے جائیں گے اور سب کو پتہ چل جائی گا کہ کراچی کے عوام جسٹس صاحب کی سیاست میں حصہ دار نہیں ہیں،مگر سازش کامیاب ہوئی اور کیوں نہ ہوتی آخر ساری ایجینسیاں انکے ساتھ تھیں سوآج پرویز الہی اچھا ہو گیا
اور پی ٹی وی جو کل تک ریلی کے خلاف کچھ نہیں بول رہا تھا آج مسلسل ایم کیو ایم کو ریلی نکالنے پر ایکیوز کر رہا ہے،اور اپوزیشن اور پنجاب کے چینلز کو دوبارہ یہ رونا رونے کا موقع مل گیا کہ ایم کیو ایم ایک دہشت گرد جماعت ہے تاکہ جو لوگ کشمیر اور کراچی میں انکا کام دیکھ کر متاثر ہوئے تھے پھر مخمصے میں پڑ جائیں،
اب رہا سوال فاروق ستار کے معافی مانگنے کا تو ایک تو انہوں نے اس لیئے معافی مانگی کہ صوبہ میں انکی حکومت ہے اس حوالے سے انکی زمہ داری بنتی تھی اور دوسرے اس سازش کا جب تک پردہ فاش نہ ہو تب تک بظاہر یہ الزام ان کی جماعت پر ہے،انہوں نے معافی مانگنے کے ساتھ اور بھی کچھ کہا تھا جو آپ لوگ تعصب کی وجہ سے بھول گئے انھوں نے کہا تھا کہ یہ ہمارے خلاف سازش کی گئی ہےاورایک تیر سے کئی شکار کیئے گئے ہیں،
اظہر صاحب نے پوچھا ہے کہ آپ آخری پوسٹ کیوں کر رہے ہیں؟دراصل زہر اگلتی زبانوں سے طبیت اکتا گئی ہے یوں بھی سب کے لبادے اتر گئے ہیں اور اصلیت صاف نظر آنے لگی ہے،اظہر اور راشد اوران جیسے دوسرے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شور مچا کر وہ حق کو چھپادیں گے اور راشد صاحب تو اتنا پریشان رہتے ہیں کہ ہر پوسٹ کے آخر میں چاہے وہ کتنی ہی پرانی ہو اپنی آئیں بائیں شائیں کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ اگر کوئی سچ سے متاثر ہو رہا ہو تو اسے کنفیوز کیا جاسکے، میرے بھائی یہ تو رب کائنات کا فرمان ہے کہ حق آنے کے لیئے اور باطل مٹ جانے کے لیئے ہے،
میرا ایک مشورہ ہے آپ لوگوں کے لیئے آپ لوگ انقلاب کی باتیں کرناچھوڑ دیں اور اسی طرح صوبوں قوموں اور زاتوں میں بٹے رہیں یہی آپکا مقدر ہے،
خوش رہو اہل چمن ہم تو سفر کرتے ہیں،
عبداللہ آخری پوسٹ پر تو سچ بول کر جائیں کہ اپنے نقاب اترنے پر اتنی بوکھلاہٹ ہے کہ آپ سے الزام تراشی بھی درست طریقے سے نہیں ہو پارہی۔ میں بتاتا ہوں آپ کو۔۔ گن نکالیے اور ٹپکا دیں جس جس سے شکایت ہے۔۔ جیسے 12 مئی کو کیا ابھی تو کافی وارم اپ ہونگے۔
Assalam u Alaikum.aap tamaam hazraat ke pehlay bhi comments perhay hain lakin karachi ka ya hadsa honay ke baad aisa lagta ha ke har koi sirf nafrat hi kerna janta ha kisi ko iss baat ki fiqer nahi ke hum sub aik qoom hain aur wooh ha muslim aur wooske baad pakistani aur baad ma kuch aur zabanoo ke alawah hum firqoon ma batay howay hain kahin bhi hum muhobbat kertay howay nazer nahi aatay ya jo aaj tamaam jamatain aapes ma beath ker aik hi jamaat ka roona roo rahin hain kiya ya aapes ma aik hain nahi ya sub waqt se faydah oothanay wali hain ya khud mazee ma aik dosray ke khilaaf ghalat zabanay istemaal kerti rahin hain.hum bhut jald apnay mazee ko bhul jatay hain aaj ka waqt woohi mazee duhra raha ha jub aik jamaat ko hatanay ke liyy 9 sitaray jama howay thay aur in 9 sitaroon ka jo hasher howa dekhnay waloon nay dekha ha. lihazaa meray dostoon humay aik suchchay pakistani aur muslim honay ka saboot nafrat ke izhaar se nahi muhobbat ke jazbay se dena ha. takay duniya ke saath aakhirat bhi achchi ho.
عبداللہ یہ زہر اگلتی زبانیں صرف اظہر اور دوسرے لوگوں کی نہیں بلکے ساری دنیا کی ہیں ۔ ۔ ۔۔ یہ اسی کی دہائی نہیں جس میں جنگ اخبار کی کاپیاں جلا دی جائیں اور امن اور عوام جیسے اخباروں کی سرخیاں بنیں ۔ ۔ ۔ یہ نئی صدی ہے اور نیا دور بھی ۔ ۔ ۔ اس میں سچ دیر تک نہیں چھپتا ۔ ۔ ۔ مجھے ایک دوست نے آج ہی بولا ہے ۔ ۔ (دوست اسلئے کہ وہ ایک اچھا انسان بھی ہے ، اور ایم کیو ایم کا زبردست حامی بھی ) ۔ ۔ اگر پیپلز پارٹی والے “لچی ہے لفنگی ہے “ کا نعرہ لگا کر بے نظیر کے ساتھ رہ سکتے ہیں تو پھر ۔ ۔“قاتل ہے ، فاشسٹ ہے “ کا نعرہ سن کر ہم بھی الطاف کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ ۔ ۔
عبداللہ آپ ایم کیو ایم کی حمایت صرف نظر بندی کے تحت کر رہے ہو دوسرے لوگوں کی طرح ۔ ۔ ۔ میں ایم کیو ایم کے اچھے لوگوں کو بہت قریب سے جانتا ہوں ۔ ۔ ۔ کیا میں اس شخص کی بات کروں جو اس وقت دبئی میں ایک ہوٹل کھول کر بیٹھا ہے اور کبھی ایم کیو ایم کے گڑھ کا کونسلر تھا اور پھر ایم این اے بنا ۔ ۔ ۔ یا پھر اس شخص کا ذکر کروں جو آج گورنر سندہ ہے ۔ ۔ ۔ جسنے ایک دفعہ بے بسی سے کہا تھا کہ ۔ ۔ ۔ مجھے میری شرافت نے چُپ کرا دیا ہے ۔ ۔ ۔ یا پھر اس شخص کا ذکر کروں جو آج ناظم ہے ۔ ۔ ۔ مگر عبداللہ آپ تعصب کا ہمیں طعنہ دے رہے ہو ۔ ۔ ۔ اور مجھے جسنے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور سہا بھی ہے ۔ ۔ ۔ اور جسکے سب سے زیادہ دوست اردو سپیکنگ ہیں ۔ ۔ ۔ میرے پاس پاکستان میں آج بھی اے پی ایم ایس او کا وہ کارڈ موجود ہے جو میرے دوستوں نے ایک جلسے میں دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ میں الطاف حسین کو ہنڈا ففٹی کے زمانے سے جانتا ہوں ۔ ۔۔ ۔ کیفے پیالہ میں میں نے ایسی بہت باتیں کیں اور سنی ہیں ۔ ۔ ۔ اور وہ منظر بھی دیکھا ہے جب جوانوں نے اس ہنڈا ففٹی کو چوما تھا اور وہ وقت بھی دیکھا ہے جب الطاف کی تصویروں پر غلاظت ملی گئی ۔ ۔ ۔ میرے بلاگ پر کبھی میری زندگی کی کچھ یادیں پڑھیں تو پتہ چلے گا کہ کیا کیا کچھ دیکھا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آج جو بات میں نے کہی تھی ساری دنیا نے دیکھی ہے ۔ ۔ ۔ اور ساری دنیا وہ ہی کہ رہی ہے جو میں کہتا تھا ۔ ۔ ۔ آخر بات صرف اتنی کہ اگر کراچی کی آبادی ایک کروڑ ہے اور پچاس لاکھ لوگ ایم کیو ایم کے ہیں تب بھی کراچی کے مختار کل کبھی ایم کیو ایم نہیں بنے گی ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ D7 کے پہلے اسٹاپ سے لیکر آخری اسٹاپ تک ۔ ۔ ۔پورا کراچی آتا ہے ۔ ۔ اور W11 کہیں بھی D7 کو کراس نہیں کرتی ۔ ۔ ۔ ( یہ بات خالص کراچی والوں کے لئے ہے ، کہ ڈی سیون اور ڈبلیو گیارہ دو ایسے بس روٹ ہیں جن پر آدھی سے زیادہ کراچی کی آبادی سفر کرتی ہے ۔ ۔ ۔ اور ڈبلیو گیارہ ۔۔ ۔ کراچی کا اپنا فلائنگ کروز ہے 🙂 ۔۔ ۔
راشد آج آپ نےواضح زاتی تنقید کی ہے اور مجھے دہشت گردبنانے کی کوشش کی ہے، اب اگر آپ اپنی زبان کے پکے ہیں تو آج کے بعد بلاگ کرنااور تبصرہ لکھنا چھوڑ دیں کم سے کم راشد کامران کے نام سے ہی سہی:)
اظہر صاحب ہمدردی کا شکریہ مگر میں ہرگز نظر بند نہیں ہوں فلحال تو سعودی عرب میں ہوں اور کراچی میں بھی الحمدللہ آزاد ہوں،نظر بند تو آپ لوگ ہیں اپنے تعصب میں،
جی ہاں میں نے واضح تنقید کی ہے آپ کا نام لے کر کی ہے اور دہشت گردوں کے حامی کو دہشت گرد بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ دہشت گرد کہہ رہا ہوں اور مانتا ہوں۔ آپ کے پچھلے چند تبصروں کے بعد پہلی دفعہ مجھے ایسا لگا کے آپ کو ہماری تنقیدات اور تبصروں کی نہیں ماہر نفسیات کی ضرورت ہے۔ کہتے ہیں “یہ آفر محدود مدت کے لیے ہے“ تو میری آفر اس بلاگ تک محدود تھی کیونکہ آپ کے موجودہ تبصروں کے بعد میرے پاس دو راستے تھے کہ درگزر کروں یا جواب دوں تو میں نے جوابی راستہ چنا کہ آپ کو آپ کی زبان میں ہی جواب دینا زیادہ مناسب ہے۔۔ اور خدا لیے اب آخری پوسٹ کر بھی لیں۔۔
متحدہ قومی مومنٹ کراچی کی تباہی کی زمہ دار ہے۔ تمام تر ثبوت یہاں موجود ہیں۔
http://www.mqmwatch.com
چیف جسٹس افتخار محمد چوردھری سے گزارش
یہ ایک مسلمہ بین الاقوامی اصول ہے کہ جب کسی عدالت میںکوئی ایسا ایسا وکیل کوئی مقدمہ لڑ رہا ہو جو کہ کسی وقت متعلقہ جج کا بھی وکیل یا کوئی اور صورت میںاس جج سے کوئی واسطہ رکھتا ہو تو اخلاقی طور پر وہ جج ایسے مقدمے کی سماعت سے انکار کردیتا ہے یہ اس کا اخلاقی فرضبھی بنتا ہے
اسی طرحجب کسی تناعزے پر لوگ بات کرنے تقریر کرنے یا بیان دینے سے یہ کہ کر انکار کردیتے ہیںکہ یہ معاملہ چوںکہ عدالت میں ہے اس لئے اس پر بات نہیںہوسکتی عدالت کا فیصلہ آجائے پھر بات کرتے ہیں
افتخار صاحب باقی لوگ تو سیاست دان ہیںوہ اگر نہیںمانتے تو آپ ہی مان جائیے جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیںآجاتا آپ ہی انکار کردیںکسی قسم کے بار سے خطاب ٹی وی چینلوںمیںبیان بازی اور اسی طرحکی دوسری چیزیںجو ایک جج کی حیثیت سے آپ پر لاگو ہوتی ہیں
یہ کوئی دلیل نہیںہے کہ فلاںچیف بھی سیاسی جلسوںسے خطاب کرتا ہے تو میںبھی کروںگا
کسی کو اگر کتا کاٹ لے تو اسپتال جاکر اس کا علاج کرایا جاتا ہے جواب میںکتے کو کاٹا نہیںجاتا
سید علی رضا
علی رضا بڑے ادب و احترام سے عرض کروں گا کے چیف جسٹس نے اب تک نہ کسی سیاسی جلسے سے خطاب کیا ہے اور نہ ہی وہ اپنے کیس پر کوئی بات کرتے ہیں کم از کم اس طرح نہیں جسطرح دوسرا فریق جو کے حادثاتی طور پر مملکت کا صدر اور فوج کا سربراہ بھی ہے اور اس نے وردی میں بھی جلسوں سے خطاب کیا ہے۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں خاموشی کا مطلب رضا مندی سمجھا جاتا ہے آپ کے خیال میں چیف جسٹس کی خاموشی کا کیا مطلب لیا جائے گا ؟ آپ لوگ یہی مشورے ملک کے صدر، فوج کے سربراہ اور صوبوں کے گورنروں کو کیوں نہیں دیتے۔ صدر جو کے وفاق کا نمائندہ ہے اپنی جماعتی وابستگی کا علی الاعلان ڈھنڈورا پیٹے اور گورنر پارٹی میٹنگز میں لندن جائیں اور چیف جسٹس عہدے کا خیال کریں۔۔ سبحان اللہ
یعنی راشد صاحب اس بات کی آپ ہمایت کرتے ہیںکہ اگر کسی کو کتا کاٹ لے تو جواب میںاُسے بھی ویسا ہی کرنا چاہیئے یعنی کتے کو کاٹ لینا چاہیئے
یہ کیا مسئلہ ہے کہ عدالت کو آزاد کردو عدالت کو آزاد کردیا تو کیا عدالت مفت میںمقدمات سننے لگے گی
کم از کم کتے کو مارا تو جا سکتا ہے تاکہ دوبارہ کسی کو نہ کاٹے ۔۔ اب تک آپ کی مثالوں کی وجہ سے کتوں کو چھوڑتے آئے ہیں جسی وجہ سے کراچی اور اسلام آباد کے کئی کتے بہت زیادہ کاٹنے لگے ہیں۔ یہ عدالت کی آزادی اور مفت مقدمے کی بھی خوب کہی آپ نے یہی میں کہوں غالبا متحدہ کے لیے عدلیہ کی آزادی مفت مقدموں سے مشروط ہے۔۔
اے دل ناداں تجھے ہواکیاہے
آخر اس مرض کی دوا کیا ہے
ملک پاکستان کووجود میں آئے ہوئے نصف صدی سے زیادہ کاعرسہ گزر چکاہے مگرتاحال یہ معلوم نہیں ہوسکاہے کہ اس ملک پراصل حکمرانی کون کررہاہے بظاہر توجمہوری حکومتیں بھی آئیں ڈکٹیٹر شپ بھی حکمرانی کرتے آئے مگرحالات اور واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ملکی معاملات پرکنٹرول کسی تیسری قوت کارہاہے اور ھمارےجمہوری اورڈکٹیٹر حکمران اس درپردہ تیسری قوت کےآلہ کاربن کرملک وقوم کی تباہی کے تماشے دیکھتے رہتے ہیں مگریہ مکافات عمل ھے کہ ایک وقت آتاھے جب یہ قوم ان بظاہر بژے مضبوط حکمرانوں کی ریت کی دیوار کی طرح گرتی ہوئی حکومت کاتماشادیکھتی ہے اس کے با وجود بھی ہمارے ملک کے ان سیاست دانوں نےہوش کے ناخن نہیں لیئے بلکہ یہ توخودنعرہ لگاتے ہیں گرتی ہوئ دیواروں کو ایک دھکااور دو ہروہ سیاستدان جوبظاہر توڈکٹیٹر شپ کے خلاف آگ کے گولے برساتا ہوانظرآیا مگرپس پشت ان ڈکٹیٹر حکمرانوں کاآلہ کاربنارہاہے اوراپنے سیاہ کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کیلئےدوسروں پر کیچڑ پھینکتےرہے ہیں فرق صرف اتنا یے کہ ان میں سے کوئی رات کو شب خون مارتاہے تو کوئی دن دیہاژے ڈاکہ مارتا یے مقصد دونوں کاایک ہی ہے کہ ملک وقوم کی تباہی وبربادی، نہ ان کو قوم عزیز ہے اورنہ ہی ملک سے پیار
mai apnay tamam tanzime kakono ko yeh pehgham daita hon k pls afaq bhai k sath sabit qadam rahain mai yaqeen delata hon k hum juld apnay apnay gharon mai hon gay kion k altaf jo kehta hai wo karta nahi hai per afaq jo kehta hai wo karta bi hai ga mohajir ga afaq
yehi altaf hai jis nay yeh nara lagwa k karachi ko khoon ki holi mai dhakaila k (jo qaid ka ghadar hai wo mout ka haqdar hai )aysay qaid ko tou zinda rehnay ka haq hi nahi hai jo apnay tanzeemi sathyon ko marwa k qaid banay humai apnay qaid afaq ahmed per fakar hai ga mohajir ga afaq
PLZ CHECK KARO HUMARI WEB SITE http://WWW.MOHAJIR.COM.PK GA MOHAJIR GA AFAQ
ٰٰآپ لوگ ھر چیز پر تبصرہ کرتے ہین ھم پر جو ظلم ھو رھا ہے وہ آپ لوگوں کو دکہتا نی ہے
ہماری ماوں بہنو ،، کے ساتہ جو ایم کیو ایم الطاف گروپ کے دہشت گردوں کے کراچئ پریس کلب پر جو انتیائ دہڈت گردی کی انتہا کی وہ کسی کو نہی دیکہی افسوس جو لوگ ظلم ہو ے ہو ے چپ رہں وہ بہی ظالم کی ساتہی ہیں آپ لوگوں کو خدا کو بہی جواب دینا ہے آٹہو اور حق کا ساتہ دو پلز آفاق بہائ کو راہا کروں کنویک آفاق بہائ ہی مھاجروں کے واحد رہنما ہیں
طاف بھائی واقعی اولیاء ہیں
از: موج دین
الطاف بھائی اولیاء ہیں۔واقعی۔آپ کواعتراض ہو گا۔کچھہ نہیں تو گرامر پر ،مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
الطاف بھائی اتنے دن سے کہہ رہے تھے کہ کراچی میں کچھہ ہونے والا ہے،کچھہ ہونے والا ہے۔مگر کوئی دھیان ہی نہیں دے رہا تھا۔اب دیکھہ لیا نا؟ الطاف بھائی کو پہلے ہی پتہ تھا۔ایک سال سے وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ کراچی کا امن خطرے میں ہے۔
اب اولیاء والا واقعہ سن لیں۔ کسی دور افتادہ گاءوں میں کوئی ناری اپنے آشناء کے ساتھہ “بھاگ” گئی۔
سارا خاندان صدمہ سے نڈھال تھا۔منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔گھر کا ہر فرد روئے جا رہا تھا۔ مگر باپ تھا کہ روتا بھی جاتا مگر کہتا جاتا۔۔ ” کچھہ بھی ہو لڑکی اولیاء تھی”۔لوگوں نے پنک کر پوچھہ لیا کہ چاچا یہ کیا منطق ہے؟ باپ کہنے لگا”بچاری کئی دن سے بار بار کہہ رہی تھی ،گھر میں کوئی بندہ گھٹ ہونے والا ہے۔تھی اولیاء”
الطاف بھائی بھی اولیاء ہیں۔ کئی دن پہلے ہی انہوں نے آگاہ کر دیا تھا کہ کراچی میں کچھہ ہونے والا ہے۔ملکی ایجنسیاں اور خفیہ والے کچھہ نہ پکڑ سکے ورنہ الطاف بھائی بچے بچے کو ان واقعات کے لئے “تیار” کر رہے تھے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ملکی”سلامتی” کےذمہ دار ادارےاس قدر کھلی وارادت پراس بار کیا کرتے ہیں؟
ہم بھی سیدھے ہی ہیں۔ ایک ہی فلم بار بار دیکھہ کر سوچتے ہیں شاید آٓج فلم میں ہیرو گھوڑے سے نہ گرے ،یا ٹرین لیٹ ہو جائے۔
یہ ادرے ۱۹۸۶ میں جو کرتے رہے وہی اب بھی کریں گے اور کیا کریں گے؟جو ۱۲ مئی ۲۰۰۴ ء کو کیا وہی کریں گے۔جو ۱۲ مئی ۲۰۰۷ ء کو کیا وہی اب بھی کریں گے۔
کسی نے کئی سو سال پہلے کہا تھا
کالے پت نہ چڑھے سفیدی
کاگ نہ تھیندے بگے
﴿کالے کپڑوں پر سفیدی نہیں چڑھتی،کوے سفید نہیں ہو سکتے﴾
یہ با عزت اور با وقار ادارے وقار سے کھڑے ہیں ،سب دیکھہ رہے ہیں اور خون بہتا دیکھہ کر ان کے بوٹوں پر بھی جوں نہیں رینگتی،ہاں وہ تو اسے ہی “عوامی قوت” کا مظہر کہتے ہیں۔
پروفیسر عبدالغفور صاحب نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم اور اے این پی کراچی کے قتل و غارت کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے ہماری معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ ہاں اپنی روش برقرار رکھی ہے۔کیا انہیں اپنے گھر پر ہونے والے بم دھماکے یاد نہیں؟پتہ نہیں یہ لوگ سچ بولنے سے کیوں باز نہیں آتے۔کیا جیو اور اے آر وائی کی طرح مشکل وقت میں چپ نہیں رہ سکتے۔ دیکھتے نہیں غصے میںٰ”یہ لوگ” کیا کچھہ کر سکتے ہیں۔
ادھر شہر میں انسانی خون کی نصف سنچری مکمل ہوئی ہے ادھر الطاف بھائی نے “امن بھیک مشن” شروع کر دیا ہے۔ لوگ اب بھی الطاف بھائی کے خلوص پر بھروسہ نہیں کر رہے۔
مگر۔۔۔آفرین ہے حمید گل صاحب پر ،انہوں نے کہا ہے کہ ملکی سلامتی کے لئے بلائی جانے والی کانفرنس الطاف حسین کے بغیر بے کار ہو گی۔یہ مزاحیہ فلم اب لیٹ ہو گئی ہے۔اگر طنزیہ ہے تو بھی۔حمید گل صاحب تو رازدار ہیں پورے افسانے کے۔اب سچ بول ہی دیں۔ بہت ہو گیا۔کبھی کبھی عوام کو دھوکہ نہ بھی دیا جائے ،تو کیا ہے۔وقفے میں حرج ہی کیا ہے؟
یہ حمید گل صاحب وہ ہیں کہ جب کور کمانڈر ملتان تھے تو ایم کیو ایم کی سرکاری سرپرستی کا “استریتجک” دفاع کیا کرتے اور اسے ضروری قرار دیتے تھے۔واہ ! تقسیم میں وحدت کے سرچشمے ایسی دور رس نگاہیں ہی دیکھ سکتی ہیں۔ ہما شما کا کیا کام۔
ہم آپ کیا جانیں ملکی مفاد،ملکی سلامتی کے تقاضے،پاکستانیوں کے باہمی فسادات کی برکتیں،قومیتوں کی بنیاد پر زہریلے پروپیگنڈے کی افادیت۔گاڑیاں جلنے،گھر لٹنے،کاروبار تباہ ہونے،اورنفرت اور خوف و ہراس کے پیچھے چھپی برکات و حسنات ۔ اس کے لئے چاہیے صاحبان کمال اور حاملین قوت کی نظر۔۔۔۔کیوں حمید گل صاحب
ٹھیک ہے نا؟
غزالاں تم تو واقف ہو!
loudtruth@gmail.com
عبداللہ کا تبصرہ19th June, 2009 میں چونکہ یہ پوسٹ ایم کیو ایم کے بارے میں ہے تو انصاف کا تقضہ یہ ہے کہ اس پر انکا موؤقف بھی واضح ہونا چاہیئے تاکہ فیصلہ کرنے والون کو آسانی رہے ،پہلے افضل صاحب نے ان کا ربط لگایا ہوا تھا لیکن اب نہیں ہے اس لیئے ان کی ویب سائٹ کا اڈریس یہ ہے،
http://www.mqm.org
Leave A Reply