آج کے مسلمانوں کی اکثریت وہ ہیں جو رمضان کے مہینے میں پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہ روزے رکھتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں اور اعتکاف بھی بیٹھتے ہیں۔ زکوۃ بھی رمضان کے مہینے میں دیتے ہیں۔ صاحب ثروت لوگ رمضان میں عمرہ بھی کرتے ہیں۔ مگر جونہی عید کا چاند نظر آتا ہے مسجدیں ویران ہو جاتی ہیں اور یہ مسلمان دنیاوی خرافات میں مگن ہو جاتے ہیں۔
یہی کچھ محرم میں بھی ہوتا ہے۔ دس محرم تک جلوس نکالے جاتے ہیں۔ امام حسین کی شہادت کا سوگ منایا جاتا ہے۔ سینہ کوبی ہوتی ہے، ذوالجناح کی زیارت کرتے ہیں، مجالس ہوتی ہیں اور دس محرم کے بعد مسلمان کالے کپڑے اتار کر پھر دنیاداری میں ایسے مگن ہوتے ہیں کہ ناں انہیں حضرت امام حسین کی اسلام زندہ کرنے کی روایت یاد رہتی ہے اور نہ ان کے اسلوب کی پرواہ ہوتی ہے۔ مسلمان زور زبردستی سے غریب کو روندتے پھرتے ہیں اور بے بسوں کی عزتیں بازاروں میں اچھالتے پھرتے ہیں۔
مسلمان بہت سہل پسند ہو چکے ہیں۔ انہوں نے گناہ معاف کروانے اور جنت میں داخل ہونے کے ایسے آسان راستے تلاش کر لیے ہیں کہ اب انہیں مشقت کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ مسلمان دھوکہ دیتے ہیں، زناہ کرتے ہیں، زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں، صرف جمعہ یا عید کی نماز پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں خدا غفورالرحیم ہے وہ انہیں بخش دے گا۔ کوئی مسجد نبوی میں چالیس نمازیں پڑھ کر سمجھتا ہے کہ گناہوں سے پاک ہو گیا، کوئی ذوالجناح کے نیچے سے گزر کر سمجھتا ہے اس کے گناہ دھل گئے، کوئی بہشتی دروازے سے گزر کر سمجھتا ہے کہ اس کو خدا نے معاف کر دیا، کوئی داتا دربار کو غسل دے کر سمجھتا ہے اس کی ساری خطائیں بخش دی گئیں۔ اسلام کا اصول تو یہ ہے کہ اس کے گناہ معاف کئے جائیں گے جو دوبارہ گناہ نہیں کرے گا۔ مگر مسلمانوں کی اکثریت اس اصول سے آنکھیں چرائے پھرتی ہے اور سجمھتی ہے کہ خدا کیساتھ مکر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ جو اس کیساتھ مکر کرتا ہے وہ اس کیساتھ مکر کرتا ہے۔ یعنی جتنا چاہے چکر چلا لو خدا کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ وہی بخشا جائے گا جو دل سے توبہ کرے گا اور آئندہ گناہ نہیں کرے گا۔
2 users commented in " چند دن کے مسلمان "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackجتنا چاہے چکر چلا لو خدا کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ وہی بخشا جائے گا جو دل سے توبہ کرے گا اور آئندہ گناہ نہیں کرے گا۔۔۔۔
بس یہ والی بات سمجھ آ جائے تو معاملہ صحیح ہو جائے۔بات یقین آ جانے کی ہے۔
بس جی یہ ہی کچھ چل رہا ہے۔ دکھاوّا اور “ٹوٹل پورا” پالیسی، تعظیم اور کامیابی کا میعار دولت اور عہدہ۔ ہمارا زور ظاہر پر ہے باطن پر نہیں۔ جیسے ہم دفتری یا عدالتی کاروائی کے دوران کاغذات پر کئی طرح کی مہریں لگواتے اور تصدیقیں کرواتے ہیں اور ہمارا مقصدر کاروئی پوری کرنا ہوتا ہے ہم یہ بالکل نہیں سوچتے کہ یہ سارے کاغذات، ان مہروں اور تصدیقوں کے پیچھے اصلیت کیا ہے ہمیں تو ٹوٹل پورا کرکے کاروائی میں سرخرو ہوتے کی جلدی ہوتی ہے۔ دین کے معاملے میں بھی ہم کچھ ایسے ہی ہیں۔ لیکن میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ سب ٹھیک کیسے ہو گا روائتی تبلیغ تو شاید کام نہیں کرنے والی۔ تخلیقی ذہن رکھنے والے اور علم کے ساتھ ساتھ حکمت کے حامل لوگوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔
Leave A Reply