ہم شروع سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان اتنے اہل نہیں کہ وہ شاطرانہ چالیں چل سکیں۔ ان کی ڈور کسی بیرونی طاقت کے پاس ہوتی ہے جو انہیں بتاتی ہے کہ اس وقت کونسی چال چل کر قوم کر بیوقوف بنانا ہے۔ حکومت اس قابل تھی ہی نہیں کہ وہ گستاخانہ فلم کیخلاف احتجاج کو کیش کرنے کیلیے اور مذہبی جماعتوں کے غّصے کو کم کرنے کیلیے جمعہ کو یوم عشق رسول کا اعلان خود سے کرتی اور ساتھ ہی قومی چھٹی کا بھی اعلان کر دیتی۔ عام آدمی تو اس اعلان کو حکومت کی اسلام کیساتھ ہمدردی سمجھے گا مگر مخلص اور ذہین لوگ اسے حکومت کی شاطرانہ چال سجمھیں گے۔ اس طرح حکومت مذہبی جماعتوں کے غصے کو بھی کیش کرا لے گی اور دوسرے انتخابات کے نزدیک لوگوں کے ووٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
جمعہ کو چھٹی دینے سے تعلیمی ادارے بند رہیں گے اور طلبا احتجاج میں اجتماعی طور پر شریک نہیں ہو سکیں گے۔ ٹرانسپورٹرز توڑ پھوڑ کی وجہ سے گاڑیاں بند رکھیں گے اور اس طرح احتجاج کرنے والوں کو پبلک ٹرانسپورٹ میسر نہ ہونے کی وجہ سے ایک جگہ پر اکٹھے ہونے میں دقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آفرین ہے حکومت کی سوچ پر اور اس کے مشیروں کی ذہانت پر جنہوں نے احتجاج کو کیش بھی کر لیا اور عوامی غیض و غضب سے بچ بھی گئی۔
6 users commented in " گستاخانہ فلم کیخلاف کامیاب حکومتی حکمت عملی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackامت چھٹی کا نہیں امریکی ایمبیسی اڈوں کے خاتمے اور سفارت کاروں کی ملک بدری کا مطالبہ کر رہی ہے اور یہ چھٹی کے لولی پوپ دے رہے ہیں عوام کو
کاش ۔۔۔ حکومت امریکہ سے قرضہ ۔ امداد اور خیرات سے جان چھڑانے کا اعلان کرتی۔ خیرات کی لعنت سے بچ نکلنے کی آئیندہ منصوبہ بندی کرتی۔ تو ایک آزاد پالیسی بنانے میں ۔ایک آزاد ملک کہلوا کر ہم بہتر طریقے سے امریکہ سے بات کرسکتے۔
یہ مغرب کا رواج ہے کہ مختلف ڈے منائے جائیں۔ نبی کریم صلٰی اللہ علیہ وسلم تو مسلمان کی روح میں رچی بسی ہوتی ہے اسے کس طرح ایک دن کا پباند کیا جاسکتا ہے ۔ ایک دن ۔۔۔ اور پھر ساراسال امریکی ڈیز۔۔۔
درست کہا، کہ یہ بھی ایک چال ہے۔ یہ جو پر امن احتجاج کی بانسری بجا رہے ہیں یہ بھی کسی کی دی ہوئی ہے ان کے منہ میں۔ شرم ناک بات ہے کہ حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان ، دین اسلام ، حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے احتجاج بھی سیاسی مفادات کی بنا پر کر رہی ہے۔
کیا بات ہے ، آم کے آم گھٹلیوں کے دام۔
ہمارے سیاستدان بالکل اُسی طرح ردعمل ظاہر کرتے ہیں جس طرح سے ایک مداری کا بندر۔ جو کھانے کے لالچ میں ڈگڈگی کی آواز پر ناچتا ہے اور لوگوں کی جیبوں سے پیسے بٹورکر اپنے مالک کو دیتا ہے جس میں سے اُسے صرف روٹی کے چند لقمے ہی نصیب ہوتے ہیں یہی حال ہمارے حکمرانوں کا ہے جن کی ڈور بیرونی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ ان کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں جہاں عوامی مفاد کو مد نظر رکھنے کی بجائے صرف اپنے مفاد کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ اور جہاں تک بات ہے کہ یہ ہڑتال کا اعلان کر کے عوام کو ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس بیوقوف عوام کو اسی دن سمجھ جانا چاہیے تھا جب نیٹو سپلائی بحال کی گئی تھی اگر حکمران میں خود داری ہوتی تو تب ہی بیرونی طاقتوں کو ناکوں چنے چبوا دیتے ۔لیکن جناب جب نوٹوں کی بارش ہو تو بھلا کسی اور کا خیال کب آتا ہے۔
بیچ کر مجھے سر بازار۔ اب پوچھتا ہے کہ حال کیسا ہے۔۔۔۔
مسلمانوں کو اس امر کا احساس کرناچاہئے کہ آج ان کے پیغمبر کی توہین اس لئے ہورہی ہے کہ وہ دنیا میں کمزورو ناتواں ہیں اور بین الاقوامی سطح پران کاکوئی وزن اور ان کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں ہے۔ اگر آج وہ تنکے کی طرح ہلکے نہ ہوتے تو کس کی مجال تھی کہ ان کے پیغمبرﷺ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھتا۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنا احتساب کریں ، اپنی کمزوریاں دور کریں اور اسبابِ ضعف کا خاتمہ کریں ۔ اپنے دین سے محکم وابستگی اختیار کریں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں احکامِ شریعت پر عمل کریں کہ یہی ان کے لئے منبع قوت ہے اور گہرے ایمان اور برتراخلاق کے ساتھ ساتھ علم و تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی متحد ہو کر آگے بڑھیں اور طاقتور بنیں تاکہ دنیاان کی بھی قدر کرے اور ان رہنمائوں کی بھی جنہیں وہ مقدس سمجھتے اور محترم گردانتے ہیں ۔
ہو اگر عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق
(اقبال)
خود اذیتی کا عنصر سب سے زیادہ صرف پاکستان میں ہی دیکھنے کو ملا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/2012/09/120921_editors_choice_zz.shtml
Leave A Reply