پی پی پی کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ اپنے ہی دور میں اپنے ہی عزیزوں کے قتل کا معمہ حل نہیں کر پائی۔ پہلے بینظیر کی وزارت عظمی کے دور میں ان کے بھائی پولیس مقابلے میں مارے گئے اور ان کے قاتلوں کو سزا نہیں ہوئی۔ پانچ سال قبل بینظیر قتل ہوئیں اور ان کے قاتل آج تک گرفتار نہیں ہو سکے۔
یہ بے بسی یا بے ایمانی ہے کہ صدر زرداری پانچ سال تک پورے ملک پر حکومت کریں، ان کے پاس سارے ملک کی پولیس، سی آئی اے اور آئی ایس آئی ہو اور وہ اپنی ہی بیوی کے قاتلوں کو گرفتار کر کے انہیں کیفرکردار تک نہ پہنچا سکیں۔
ہمارے ہاں تو روایت رہی ہے کہ وڈیرے اور سردار جب تک اپنے دشمنوں سے بدلہ نہ لے لیں وہ چین سے نہیں بیٹھتے۔ صدر زرداری کیسے سردار ہیں جو اپنی بیوی کا غم بھلا دیں اور پانچ سال بتیسی باہر نکال کر ہنستے رہیں مگر سکاٹ لینڈ یارڈ ار اقوام متحدہ کی تحقیقات کی مدد کے باوجود بینظیر کے قتل کا معمہ حل نہ کر سکیں۔
اس سے تو یہی لگتا ہے کہ بینظیر کے قاتل ان کے مقدمے کے مدعیوں میں سے ہی ہیں جو قتل کے مقدمے کی سنجیدگی سے پیروی نہیں کر رہے۔
2 users commented in " بینظیر کی پانچویں برسی پر بھی قاتل نایاب "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ کا اندازہ درست ہے ۔ میری معلومات شاید اسے تقویت پہنچائیں گی ۔ میرا خیال ہے کہ آپ انجنیئرنگ کالج ٹیکسلا میں پڑھے ہیں ۔ آپ نے راولپنڈی میں لیاقت باغ ۔ اور اس کے دو اطراف میں مری روڈ ۔ لیاقت روڈ اور لیاقت روڈ سے گوالمنڈی جانے والی سڑک کو دیکھا ہو گا ۔ بینظیر نے دیئے گئے روٹ کے مطابق تقریر کے بعد لیاقت باغ سے لیاقت روڈ پر نکل کر بائیں طرف مڑنا تھا اور پھر اگلے چوک سے بائیں طرف مڑ کر گوالمنڈی سے ہوتے ہوئے صدر کی طرف نکلنا تھا ۔ جب وہ نکلی کر بائیں طرف مڑی تو آگے سڑک بند تھی ۔ ڈرائیور پریشانی میں رُک گیا پھر یو ٹرن لیا ۔ اسی دوران کچھ لوگ اکٹھے ہو کر نعرہ بازی کرنے لگے اور بینظیر جو عوامی تھی کھڑے ہو کر ہاتھ ہلانے لگی ۔ اسی وقت اس پر فائرنگ ہوئی ۔ پہلا سوال یہ ہے کہ جو روٹ دیا گیا تھا اسے بند کیوں کیا گیا ؟ دوسرا سوال یہ کہ جلسے کے شرکاء تو ابھی لیاقت باغ کے اندر تھے ۔باہر کون لوگ تھے ؟ ۔ تیسرا سوال ۔ اے رحمٰن ملک جو بینظیر کا سکیورٹی ایڈوائزر تھا اور بینظیر کی کے آگے اس کی گاڑی تھی وہ گاڑی بھگا کر زرداری ہاؤس کیوں چلا گیا تھا ؟ بینظیر کی گاڑی کے ساتھ کیوں نہ ریا ؟ ہسپتال میں بینظیر کی لاش کے ساتھ شیری رحمٰن پہنچی مگر گبھراہٹ کا کہہ کر چلی گئی ۔ ہسپتال میں سب سے پہلے پہنچنے والا معروف سیاستدان نواز شریف تھا جس پر اسی دن بینظیر سے قبل حملہ ہو چکا تھا لیکن اتفاق سے وہ اپنی گاڑی میں نہ تھا اور اس کے باڈی گارڈ ہلاک ہوئے ۔ اسے روات میں اس کی پارٹی کے مقامی لیڈر نے زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھا لیا تھا ۔ بینظیر کا پوسٹ مارٹم نہیں کرنے دیا گیا اور کہا گیا تھا کہ زرداری نے منع کر دیا تھا
زرداری صاحب انتقام تو لینا چاہتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ٹھہرا کہ اب خود سے انتقام لینا ایسا آسان نہیں ہے نا۔
نعرہ بھٹو ۔ ۔ ۔ جئے بھٹو
اور ساتھ ساتھ ۔ ۔ ۔ ۔ لُٹو تے پھُٹو
Leave A Reply