پاکستان بننے کے بعد 1977 تک کنجر ہیرا منڈی تک محدود تھے۔ ہماری فلمیں خاندان کیساتھ بیٹھ کر دیھکنے والی ہوا کرتی تھیں۔ بہت کم خواتین اس وقت سینما گھروں کا رخ کیا کرتی تھیں اور اگر آتی بھی تھیں تو اپنے خاندان کیساتھ سپیشل بوتھ میں بیٹھ کر فلم دیکھا کرتی تھیں۔ کنجریوں کی سب سے بڑی چھلانگ کوٹھے سے اٹھ کر فلم سٹوڈیو تک اور کبھی کبھار حکمرانوں کی دہلیزوں تک ہوا کرتی تھی۔
پہلے نہ تو شہر شہر شادیوں پر مجرے ہوا کرتے تھے اور نہ کھسرے سڑکوں پر بھیک کی آڑ میں جسم فروشی کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ کھسروں کا کام لوگوں کے گھروں میں بچوں کی پیدائش پر ڈانس کیساتھ حاٖضری دے کر مانگنا ہوتا تھا۔ کبھی کبھار شرابی نظر آتا تھا اور وہ بھی سڑک پر غل غباڑہ کرتے اور نالی میں اوندھے منہ پڑے۔
پھر جنرل ضیاءالحق نے کنجروں پر ایسا گھیرا تنگ کیا کہ وہ پورے لاہور میں پھیل گئے۔ اب ڈیفینس سمیت لاہور کی بڑی بڑی کوٹھیوں میں ان کے اڈے ہیں۔
یوٹیوب پر مجروں کی ویڈیوز دیکھ کر لگتا ہے پاکستان میں اب شادیوں پر مجرے فیشن بن چکے ہیں۔ بے حیائی کی رہی سہی کسر سٹیج ڈراموں نے نکال دی ہے جہاں لچر اور بیہودہ مذاق کیساتھ نیم عریاں ڈانس بھی پیش کیے جاتے ہیں اور پاکستان کے مسلمان ایک ایک فحش فقرے اور ڈانس پر قہقہے بکھیرتے نظر آتے ہیں۔
بھٹو دور میں لوگ دبئی گئے تو وہاں سے انڈین فلمیں وی سی آر سمیت لے کر آئے۔ جب تک ٹی وی چینل نہیں تھے لوگ وی سی آر پر عریاں فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ اب عریاں فلمیں موبائل فون اور ٹی وی چینلز پر گھروں میں دیکھ سکتے ہیں۔ انڈین ٹی وی چینلز ہماری ثقافت پر بہت بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس تمام ثقافتی تنزلی کی طرف کسی بھی حکومت نے دھیان دینا مناسب نہیں سمجھا۔ یہاں تک کہ نیم اسلامی سوچ والی مسلم لیگ ن نے بھی اس بے حیائی کے سیلاب کو روکنے کی بات تک نہیں کی۔
3 users commented in " کنجر ثقافت کی ترقی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمحترم۔
1۔ ایڈوانس مبارک۔ کہ یہ آپ کی سب سے زیادہ وزٹ کی جانے والی پوسٹ بننے والی ہے۔
2۔ کیا کنجر ایک غلیظ لفظ ہے؟
3۔ یہ کام ازل سے ہو رہے ہیں اور ابد تک ہوتے رہیں گے۔ جس زمانے میں آپ کو کھلے عام نظر نہیںآتے تھے، اس زمانے میں آپ کی صحبت غالباً اچھے لوگ سے تھی۔ اپنا ماحول تبدیل کریں۔
ایک اور اضافہ۔
آپ کی بات ٹھیک ہے کہ ماحول خراب ہو چکا ہے۔
از احمر
ریڈ لاییٹ ایریاز سب سے پہلے ایوب خان نے ختم کیے تھے اور نواب کالا باغ نے اسی بنا
پر اس کی مخالفت کی تھی کہ ان کے علاقے ختم کیے جانے سے یہ لوگ عام لوگوں کی بستی میں ٹھکانے بنا لیں گے اور یہی ہوا-
ضیاالحق صاحب نے اس زمانے کی ثقافت پر ضرب لگایاور بڑے اداکار، کلاسیکل کلاکار گھر بیٹھ گے –
ان کے بعد یکے بعد دیگرے چار حکومتیں تبدیل ہویں اور چاروں کو اپنی حکومت بچانے اور اپوزیشن کو کھڈے لاین لگانے کی فکر رہی، اس عمل میں ان کے ساتھ پولیس بھی سیاسی کارکنوں کے ساتھ مصروف رہی اور اس کے متوازی حساس ادارے ان حکومتوں کو چلانے یاگرانے کا کام کرتے رہے-
نتیجہ یہ نکلا کہ کسی کو اس بات کی فکر نہ رہی کہ گلیوں محلوں میں کیا ہورہا ہے –
لہذااس خلا کو تیسرے درجے کے لوگوں نے پر کیا اور ثقافت / کلچر کی جگہ کثافت اور لچر پن نے لے لی-
اسی دوران بھٹو صاحب نے جو کارخانے اور تعلیمی ادارے اپنی تحویل میں لیے تھے، دھیرے دھیرے سیاسی کارکنوں کے ہاتھوں تباہ ہوتے چلے گیے-
تعلیمی معیار پست ہوا، اور نوکریاں دستباب نہ رہیں،، لوگوں کا معیار زندگی پست ہوا، پھر ذہنی رویے تبدیل ہو کر مبتذل ہوگیے-
اب نتیجہ آپ کے سامنے ہے-
Leave A Reply