بنگلہ دیش میں آج عام انتخابات ہو رہے ہیں اور 19 سے زائد سیاسی پارٹیوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ مگر اتنے بڑے بائیکاٹ کے باوجود وزیراعظم حسینہ واجد کو انتخابات کروانے میں ذرا بھی شرم نہیں آئی۔ بنگلہ دیش کی موجودہ افراتفری پر ہمیں بھٹو یاد آگئے جن کی آج چھیاسویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ آج حسینہ واجد بنگلہ دیش میں وہی کچھ کرنے جا رہی ہیں جو بھٹو نے 1977 کے انتخابات میں کیا تھا۔ بھٹو تو پھانسی چڑھ گئے، اب دیکھیں حسینہ واجد کا کیا بنتا ہے۔
بنگلہ دیش میں قانون تھا کہ عام انتخابات نگراں حکومت کرایا کرے گی مگر وزیراعظم حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے آئین میں ترمیم کر کے یہ قانون ختم کر دیا۔ تب سے بنگلہ دیش میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ عالمی طاقتیں بشمول بھارت ابھی تک بنگلہ دیش کی بگڑتی سیاسی صورتحال پر خاموش ہیں۔
ہمارے خیال میں وہی ہو گا جو پاکستان میں 1977 میں ہوا تھا یعنی آرمی بنگلہ دیش میں مارشل لاء لگا دے گی یا پھر پہلے کی طرح کیئرٹیکر حکومت بنا کر کسی جج کو عبوری سربراہ بنا دے گی۔ وزیراعظم اگر محب وطن ہوں اور ان میں ذرہ سا بھی سیاسی شعور ہو تو وہ اب بھی سیاسی عمل کو عپوتاژ ہونے سے بچا سکتی ہیں۔ مگر ایسا لگتا نہیں ہے کیونکہ حکمرانوں کو تب تک سب اچھا ہی نظر آتا ہے جب تک انہیں محلوں سے جیلوں میں منتقل نہیں کر دیا جاتا۔
1 user commented in " حسینہ واجد اور بھٹو؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاگر کوئی ڈکٹیٹر حسینہ واجد کو لٹکادے تو مجھے بنگلہ دیش میں آمریت پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ اے کاش یہ بھٹو اور مجیب خاندان اپنی آل اولاد کے ساتھ ہی جہنم چلا جاتا تو سانحات کا نا ختم ہونے والا سلسلہ کبھی شروع ہی نہیں ہوا ہوتا۔۔۔
سننے میں آرہا ہے کہ بلو زرداری بھی تیار ہوچکا ہے اپنی ٹھرکی سیاسی نظریات لے کر قوم کی قیادت کے لیے۔
Leave A Reply