شمالی وزیرستان میں پھر سے فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ آپریشن تب کرنا پڑا جب طالبان نے بنو اور راولپنڈی میں خودکش حملے کر کے پاکستانی فوجیوں کو نشانہ بنایا۔ اب فوج اور طالبان حالت جنگ میں ہیں۔ یہ جنگ کب تک جاری رہتی ہے، اس میں دونوں فریقوں کا کتنا نقصان ہوتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔ ہمیں تو اتنا معلوم ہے کہ جنگ سے کبھی مسئلے حل نہیں ہوتے بلکہ ملک ٹوٹتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کتنے سالوں سے فوجی آپریشن جاری ہے مگر حل ندارد۔ افغانستان ہو، عراق ہو یا لیبیا ابھی تک فوجی آپریشنوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔
ہاں فوجی حل صرف ایک صورت میں ممکن ہے جب فریق انتہائی طاقتور ہو اور وہ مخالف فریق کو جڑ سے ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔ فی زمانہ یہ ممکن ہے جب مخالف فریق کو دشمن امداد نہ دے رہے ہوں۔ ترقی یافتہ ممالک تو فوجی آپریشن سے غریب ملکوں کو تباہ کر سکتے ہیں مگر وہاں امن قائم نہیں کر سکتے۔
ہماری اب بھی دونوں فریقوں یعنی حکومت اور طالبان سے التجا ہے کہ وہ جنگ بندی کریں اور مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اپنے مسئلوں کا حل تلاش کریں۔ یہی ان کیلیے بہتر ہے اور یہی مسلمانوں کیلیے بہتر ہے۔ دوسری صورت میں دونوں طرف مسلمانوں کا ہی نقصان ہے۔
4 users commented in " فوجی آپریشن مسئلے کا حل نہیں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackجب تلک ڈالر آتے رہیں گے ہمارے جرنلز کی پتلونیں ٹائٹ رہیں گی اور بے گناہ لوگ مرتے رہیں گے۔۔۔
امريکہ کی جانب سے لشکر جھنگوی اور ملک اسحاق کو دہشت گرد قرار دے ديا گيا۔
امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے لشکر جھنگوی کے بانی اراکين ميں شامل ملک اسحاق کو ايگزيکٹو آرڈر (ای او) نمبر 13224 کے تحت بالخصوص عالمی دہشت گرد قرار ديا ہے۔ اس فيصلے کے نتيجے ميں امريکی شہريوں پر اب يہ پابندی ہے کہ وہ ملک اسحاق کے ساتھ کسی بھی قسم کا لين دين نہيں کر سکتے۔ علاوہ ازيں امريکہ ميں موجود يا منتقل کيے جانے والے يا امريکی شہريوں کی دسترس يا پہنچ ميں ملک اسحاق کے تمام اثاثے اور ملکيت بھی منجمد کر دی جائيں گی۔
ملک اسحاق لشکر جھنگوی کے بانی رکن اور موجود ليڈر ہيں۔ سال 1997 ميں ملک اسحاق نے ايک ايسی دہشت گرد کاروائ ميں اپنی شموليت کو تسليم کيا تھا جس کے نتيجے ميں سو سے زائد پاکستانی شہری لقمہ اجل بنے تھے۔
حاليہ عرصے ميں، فروری 2013 ميں پاکستان پوليس کی جانب سے اسحاق کی گرفتاری عمل ميں لائ گئ۔ وہ جنوری 10 اور فروری 16 2013 کو پاکستان کے شمال مغربی شہر کوئٹہ ميں ہونے والے حملوں ميں ملوث پاۓ گۓ جن کے نتيجے ميں قريب 200 پاکستانی شہريوں کی جان گئ۔ لشکر جھنگوی نے کوئٹہ بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ايگزيکٹو آرڈر (ای او) نمبر 13224 کے تحت اسحاق کو دہشت گرد قرار دينے کے علاوہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے ترميم شدہ اميگريشن اور نيشنيلٹی ايکٹ کے سيکشن 219 کے تحت بيرونی دہشت گرد تنظيموں کی لسٹ (ايف – ٹی – او) ميں لشکر جھنگوی کی ايک دہشت گرد تنظيم کے طور پر جيثيت برقرار رکھی ہے۔ لشکر جھنگوی کا خاصا مسلح حملے اور بم دھماکے ہيں اور تنظيم کی جانب سے پاکستان ميں بے شمار شيعہ اور سول سوسائٹی کے قائدين کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی گئ ہے۔ لشکر جھنگوی نے سال 2013 ميں کوئٹہ کے مقام پر ايک پرہجوم بليرڈ کلب پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس کے نتيجے ميں 80 پاکستانی شہری جاں بحق ہوۓ۔
ايک دہشت گرد تنظيم کے طور پر لشکر جھنگوی کی حيثيت برقرار رکھنے کے نتيجے میں اس ضمن ميں مجوزہ قانونی نتائج بھی بدستور برقرار رہيں گے جن ميں دانستہ لشکر جھنگوی کو وسائل اور سازوسامان کی ترسيل يا ايسی کسی کوشش يا سازش پر قدغن بھی شامل ہے۔ علاوہ ازيں امريکی معاشی اداروں کے زيرنگيں يا دسترس ميں لشکر جھنگوی کے تمام اثاثوں کو منجمد کرنا لازم ہے۔
محکمہ خارچہ کی جانب سے يہ اقدامات محکمہ انصاف اور خزانہ سے مشاورت کے بعد اٹھاۓ گۓ ہيں۔
تاشفين
– ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
http://www.state.gov
digitaloutreachUrdu2@state.gov
https://twitter.com/#!/USDOSDOT_Urdu
تبصرہ
مذاکرات کو کامیاب کرنا سب فریقوں کی ذمہ داری ہے اورطالبان قیادت کو بھی خلوص نیت سے مذاکرات کو کامیاب کرنے کی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے اوراپنے ایسے گروپوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے جو مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں. امن اس وقت قوم کی سب سے بڑی ضرورت ہے جو ہتھیاروں کے استعمال سے نہیں مذاکرات کی میز پر افہام و تفہیم سے ہی حاصل ہو سکتا ہے.”
اسلام امن و سلامتی کادین ہے اس میں بے گناہ لوگوں کے قتل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ۔ قیدیوں کی حفاظت پر تو اسلام میںخاص طور پر زور دیا گیا ہےلہذا قیدیوں کا قتل کیا جانا غیر اسلامی فعل ہے.پاکستان کے عوام نے یہ ملک جمہوری عمل کے ذریعے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے اور ملک میں جمہوری نظام کے حصول و بحالی کے لئے ایک طویل جدوجہد کی ہے، مسائل کا حل جمہوری طریقے سے بات چیت میں مضمر ہے۔طاقت مسائل کا حل نہ ہے بلکہ مزید مسائل کو جنم دیتا ہے۔ طالبان کو مذاکرات کے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئیے اور قومی دہارے میں آ کرجمہوری طریقےکے مطابق بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کے لئے پر امن جدوجہد کرنی چاہئیے.
Leave A Reply