ایدھی مرحوم نے کوئی ساٹھ سال انسانی خدمت کی۔ مگر مجال ہے جو حکومت نے ان کے ایک اصول کو بھی اپنایا ہو۔ انہوں نے کبھی قرضہ نہیں لیا۔ بھیک اور چندہ مانگ کر ایدھی فاؤنڈیشن کے اخراجات پورے کئے۔
اگر ہماری حکومتیں مخلص ہوتیں تو وہ ایدھی صاحب کو کم از کم زکوٰۃ کی وزارت ضرور دیتیں۔ اس کے برعکس ہماری حکومتوں نے ایسے لوگوں کو وزارت دی جو زکوٰۃ کی رقم کھانے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔
ایدھی صاحب نے بڑی کامیابی سے ایدھی فاؤنڈیشن کا بہت بڑا نیٹ ورک قائم کیا۔ ہماری حکومتیں اگر چاہتیں تو وہ ایدھی صاحب کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کم از کم پولیس، پٹوارخانے اور عدلیہ میں بہتری لا سکتیں تھیں۔ بلکہ اگر وہ کوئی ایک محکمہ ہی ایدھی صاحب کے حوالے کر دیتیں تو وہ پاکستان سے کرپشن کو کم از کم ختم کر سکتی تھی۔
اب کیا ہو گا۔ ہمارے وزیر ایدھی صاحب کے جنازے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے مگر مجال ہے جو ایک پائی بھی ایدھی فاؤنڈیشن کو دیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایدھی صاحب کی یاد میں ان کی برسی پر کم از کم پانچ ارب روپیہ اکٹھا کر نے کا منصوبہ شروع کرے۔ وہ بھی ایسے ہی جیسے ایدھی صاحب خود جھولی پھیلا کر اکٹھا کیا کرتے تھے۔
No user commented in " ایدھی مرحوم اور حکمران "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply