پاکستانی اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر اس خاتون کی چھپی ہے جو خلا میں جانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اس خاتون کا نام نمیرہ سلیم ہے اور وہ فرانس میں مقیم ہیں یا وہاں پر تربیت حاصل کررہی ہیں۔ ہم نے کافی کوشش کی کہ ان کے بارے میں مزید کچھ معلوم کرسکیں مگر نیٹ پر کافی تلاش کے بعد بھی ناکام رہے۔ خبر میں صرف یہی لکھا ہے کہ انہوں نے تربیت کا آخری مرحلہ مکمل کرلیا ہے اور وہ اب 2009 میں خلا میں جانے کیلیے پوری طرح تیار ہیں۔
ان کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ شاعرہ اور موسقارہ ہیں۔ اب شاعری اور موسیقاری کا خلانوردی سے کیا تعلق ہے یہ تو کوئی خلانورد ہی بتا سکتا ہے۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ وہ شاعری اردو میں کرتی ہیں یا فرانسیسی میں۔ موسیقی کی تو ویسے ہی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ ہوسکتا ہے نمیرہ سلیم خلا میں شاعری اور موسیقی دونوں کا تجربہ کرکے یہ دکھائیں کہ خلا میں اگر شاعری کی جائے اور پھر اسے موسیقی کیساتھ گنگنایا جائے تو وہ اس طرح کی ہوتی ہے۔
اس سے قبل بھارت کی ایک خاتوں خلاباز خلائی سفر کرکے واپس لوٹی ہیں ۔ پچھلے دنوں جب انہوں نے بھارت کا دورہ کیا تو ان کی حکومتی اور عوامی لیول پر خوب پذیرائی ہوئی۔
ہمیں امید ہے کہ نمیرہ سلیم بھی اس کارنامے کے بعد ہماری سیاحت کی ایک سابقہ خاتون وزیر نیلوفر بختیارکی طرح پاکستانی کلچر اور مذہبی تعصب کا شکار نہیں ہوجائیں گی بلکہ ان کی پاکستان میں اچھی پذیرائی ہوگی۔ نیلوفر بختیار نے فرانس ہی میں پیراشوٹنگ کی تربیت کے بعد فضا سےچھلانگ لگائی اور کامیاب چھلانگ کے بعد اپنے استاد سے گلے ملیں۔ ان کا بوڑھے سے گلا ملنا ان کی وزارت اس طرح لے ڈوبا کہ روشن خیال حکومت بھی ان کی وزارت نہ بچا سکی۔
دراصل پاکستان کا کلچر اور مذہب یہ اجازت نہیں دیتا کہ کوئی خاتون کسی مرد سے گلے ملے۔ ویسے تو اب پاکستان کی ایلیٹ کلاس ان باتوں سے بہت آگے نکل چکی ہے مگر وہ اس کے باوجود عام پبلک کے عتاب سے بچنے کیلیے اب بھی میڈیا میں اس طرح کی حرکتیں نہیں کرتی۔
دوسری طرف ہمارے پرائیویٹ ٹی وی چینلز اب تو بہت آگے نکل چکے ہیں اور وہ نہ صرف مرد عورت کے تعلقات پر بڑھ چڑھ کر ڈرامے دکھا رہے ہیں بلکہ اب بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کے نام ان ڈراموں اور پروگراموں میں ایک معمول بن چکے ہیں۔ پتہ نہیں پاکستانی کلچر کے رکھوالوں اور مذہبی لیڈروں نے ان چینلز پر چلنے والے ڈراموں سے اب تک کیسے نظریں چرائی ہوئی ہیں۔
8 users commented in " پہلی پاکستانی خلانورد خاتون "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackایک پاکستانی خاتون کے لیے تو یہ نہایت ہی اعزاز کی بات ہے اور بحیثیت پاکستانی ہمارے لے بھی فخر کا مقام ہے کہ انتہائی نا مساعد حالات میں بھی جب بھی پاکستانیوں کو موقع ملتا ہے وہ اپنے آپ کو منوا کر دکھاتے ہیں۔ رہی بات ہمارے معاشرے کی ۔۔ جناب ہم نے تو اپنے واحد نوبل انعام یافتہ سائنسدان کو ہی ڈس اون کردیا اور ایٹمی سائنسدان کو نظر بند ۔۔ تو خلانورد وہ بھی خاتون ۔۔ اندازہ لگا لیں کہ کتنی پذیرائی ہو سکتی ہے ؟
سلام
معاشرہ ان لوگوں کی ایجویمینٹس پر برہم نہیںہوتا۔ معاشرہ ان کے کرتوتوں پر برہم ہوتا ہے۔ اگر یہ خاتون اقدار کا خیال رکھیں گیں تو پذیرائی ہوگی ورنہ نہیں۔
نیلوفر اور ان خاتون کا تقابلہ بہت نامناسب بات ہو گی۔ ویسے نیلوفر کی ایک کے علاوہ بھی کچھ تصاویر تھیں جو کسی صورت فٹ نہیں بیٹھتی۔
ان خاتون کے بارے میں
http://www.paktribune.com/pforums/posts.php?t=4307&start=1
http://www.thepeninsulaqatar.com/commentary/commentaryother.asp?file=septembercommentary472006.xml
ان کا انٹرویو
http://www.newsline.com.pk/newsOct2006/interview2oct.htm
ناسا کے پروگرام کے تحت لوگوں کی خلا میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے خلانوردوں کے علاوہ دوسرے پروفیشنز سے لوگ چن کر خلا میں بھیجے جاتے ہیں تا کہ عام لوگ اس میں دلچسپی لیں۔
جیسے ابھی حال ہی میں ایک خاتون ٹیچر گئی تھیں۔ اس طرح اب نمیرہ اسلم جن کو آرٹسٹ لکھا گیا اور آپ کے مطابق وہ شاعرہ ہیں۔ تو یہ عام لوگوں کی دلچسپی بڑھانے کے لئے کیا گیا ہے اور اگر دیکھا جائے تو شائد سپیس کو ایک عام انسان کی زندگی میں سب سے کم اہمیت حاصل ہے۔
ویسے شاعری اور موسیقی بھی آرٹسٹ کے زمرے میںہی آتے ہیں۔ دراصل ان خاتوں کو پاکستانی اخبارات نے شاعرہ لکھا تھا۔
محترمہ بحیثیت سیاح جا رہی ہیں نہ کہ سائنسدان۔ اس پر محترمہ اچھی خاصی رقم خرچ کر رہی ہیں۔ اب یہ کوئی قابل فخر بات تو نہ ہوئی۔ بلکہ عجیب ہی بات ہوئی۔ اگر محترمہ کوئی رفاحی کام کرتیں یا بحیثیت سائنسدان جاتیں تو کوئی بات بھی ہوتی۔
سلام
کچھ روابط وغیرہ میں نے دوسرے ایڈریس کے ساتھ پوسٹ کیئے تھے وہ موڈریشن کے منتظر ہیں ان کو دیکھ کر اپروو کر دیں۔
احمد: آپ پروگرام کی روح کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اب دیکھین پوری قوم اب اس طرف متوجہ ہے۔ اور یہی ان کا مقصد ہے۔ محترمہ پر سارا پیسہ ناسا کا خرچ ہونا ہے محترمہ کا ذاتی پیسہ نہیں۔ اور ناسا میرے خیال سے امریکہ کے لئے کام کرے گی نہ کہ محترمہ کے لئے تو محترمہ پر تنقید کیوں؟
نمیرہ ناسا کے ذریعہ نہیں بلکہ ورجن گیلکٹک کی سپیسشپ پر خلا میں جائیں گی۔ یہ پرائیویٹ کمپنی ہے جو ورجن ریکارڈ اور ورجن اٹلانٹک وغیرہ کی مالک ہے۔ ان کا انجینیر وہی شخص ہے جسے پال ایلن نے فنڈ کیا تھا اور انہوں نے 2004 میں انصاری ایکس پرائز جیتا تھا۔
ورجن کی سپیسشپ میں پہلے 100 لوگ 2 لاکھ ڈالر فی کس دے کر شامل ہوئے ہیں۔سو یہ سپیس ٹورزم ہی ہے مگر کمرشل سطح پر۔ نمیرہ بھی انہی 100 میں شامل ہیں۔
ان کی سپیس فلائٹ سبآربیٹل ہو گی۔
اوہو اچھا، میں تو سمجھا ناسا کا پروگرام ہے۔ لیں بھئی احمد اب تو بس لے دے کر یہی کہا جا سکتا ہے شوق دا مول کوئی نہیں 😀
Leave A Reply