جنرل صاحب نے اس سے پہلے ٹی وی پر قوم کے سامنے وعدہ کیا کہ وہ 31 دسمبر 2004 کو وردی اتار دیں گے لیکن وعدے سے مکر گئے۔ کہنے لگے وہ تو زبانی وعدہ تھا انہوں نے لکھ کر تھوڑا ہی دیا تھا۔
یہ الگ بات ہے کہ شاید ایم ایم اے کیساتھ ان کا معاہدہ صرف اعلان کی حد تک ہوا ہو۔ اس شک کو تقویت ایم ایم اے کے اس وعدہ خلافی کے بعد بھی حکومت میں رہنے اور کوئی تحریک نہ چلانے سے ملتی ہے۔ پھر اس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے صوبہ سرحد کی اسمبلی وقت پر نہ توڑ کر ملا ملٹری اتحاد کے ثبوت پر مہر بھی ثبت کردی۔
اب جب جنرل صاحب چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد دوبارہ صدر بننے لگے تو ان کی اس کوشش کو سپریم کورٹ میں چیلنچ کردیا گیا۔ سپریم کورٹ میں اس دفعہ جنرل صاحب نے لکھ کر دیا کہ وہ 15 نومبر 2007 کو وردی اتار دیں گے۔ مگر حالات کچھ اس طرح بدلے کہ جنرل صاحب کو اس دفعہ اپنے لکھے ہوئے وعدے سے بھی مکرنا پڑا۔ سولہ نومبرکو جہاں جنرل صاحب کی جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کئے وہیں جنرل صاحب نے وردی نہ اتار کر لکھا ہوا وعدہ بھی توڑ دیا۔
دو دفعہ وعدہ خلافی کے بعد جنرل صاحب نے یہ طے کیا ہے کہ اب وہ وردی اتارنے کا وعدہ خود نہیں کریں گے بلکہ ان کے اٹارنی جنرل کریں گے۔ کل ان کے اٹارنی جنرل نے دوبارہ وعدہ کیا ہے کہ اب جنرل صاحب یکم دسمبر 2007 کو وردی اس صورت ميں اتاریں گے اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے حق میں ہوا۔ اٹارنی جنرل صاحب کے مدنظر یہ ہوگا کہ اس سے پہلے سپریم کورٹ جنرل صاحب کے صدارتی انتخاب کو جائز قرار دے ڈالے گی اور اس طرح جنرل صاحب دوبارہ صدر بننے کے بعد وردی اتار دیں جو کہ جنرل صاحب کے منصوبے کے مطابق ہے۔
لیکن یہ تو قدرت ہی جانتی ہے کہ یکم دسمبر سے پہلے شاید حالات ایک بار پھر پلٹا کھائیں اور جنرل صاحب اپنے اٹارنی جنرل کے وعدے کے مطابق وردی نہ اتار سکیں۔ لیکن اس دفعہ یہ وعدہ خلافی جنرل صاحب کے کھاتے میں نہیں ڈالی جاسکے گی کیونکہ وہ کہ سکتے ہیں کہ وعدہ انہوں نے نہیں بلکہ ان کے اٹارنی جنرل نے کیا تھا۔
اس کے علاوہ جنرل صاحب نے پبلک سے یہ بھی کہا تھا کہ 2007 میں پینے کا صاف پانی ہر شہر اور گاؤں کو میسر ہو گا جو اب تک پورا نہیں ہوا۔ کچھ شہروں میں پینے کے صاف پانی کے سنٹر کھولے گئے مگر ان میں سے بیشتر اب خراب ہوچکے ہیں۔ اب پتہ نہیں اس کاربار میں کس نے کتنا مال بنایا اور یہ کاروبار ادھورا کیوں چھوڑ دیا گیا؟
وعدہ خلافی پر ہماری ایک غزل کا شعر ہے، ملاحظہ فرمایے
پوچھا جو کیوں چھوڑ دیا ساتھ، تو کہنے لگے
وہ وعدے تھے محبت کے ہوا ہو گئے ہیں
لگتا ہے کسی طرح اس شعرکی بھنک جنرل صاحب کو پڑ چکی ہے تبھی وہ اپنے وعدوں کو ہوا سے بھی ہلکا سمجھتے ہیں۔
No user commented in " لکھے ہوئے وعدے سے بھی مکر گئے "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply