اس مسئلے کا حل
ہم نے عورتوں کو گھورنا-پہلا حصہ میں اس کی وجہ انسان کی جنسی تسکین بیان کی تھی۔ آئیں اب یہ سوچیں کہ جنسی تسکین ایک پاکستانی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کس طرح حاصل کرے تا کہ اسے نہ تو گھورنا پڑے اور نہ ہی حرام کاری کرنی پڑے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے نبی پاک صلعم بھی انسان کی جنسی تسکین سے آگاہ تھے اور وہ جانتے تھے کہ اس تسکین کیلیے آدمی حلال حرام کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ اسی لیے انہوں نے مسلمانوں کو جائز جنسی تسکین حاصل کرنے کے طریقے بھی بتا دیے اور ان پر عمل نہ کرنے والوں کی سزا بھی مقرر کردی۔ انہوں نے فرمایا “جب تمہاری اولاد سن بلوغت کو پہنچ جائے تو اس کا نکاح کردو” اس حکم پر بہت کم مسلمان عمل کرتے ہیں۔ خاص کر پاکستان میں صرف وہی لوگ اپنی اولاد کی شادی جلد کردیتے ہیں جنہوں نے اپنے بیٹے کیلیے پہلے سے کاروبار سیٹ کیا ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ پہلے بیٹوں کو پڑھاتے ہیں اور نوکری ملنے کے بعد اس کی شادی کرتے ہیں۔ تب تک آدمی سینکڑوں عورتوں کو گھور چکا ہوتا ہے۔
زیادہ تر پاکستانیوں کے وسائل اجازت نہیں دیتے کہ وہ سن بلوغت میں پہنچنے والی اولاد کی شادی کرسکیں۔ پہلے تو شادی کا خرچ ہی پورا نہیں کرسکتے، دوسرے اگر بہو گھر لے بھی آئیں تو اس کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ اس پر طرہ یہ کہ اگر اس نوبیاہتے جوڑے نے بچوں کی لائن لگا دی تو پھر گھر کے بجٹ کا ستیاناس ہوجائے گا۔ یہی حال لڑکی کی شادی کا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ چودہ پندرہ سال کی لڑکی کی شادی برسرروزگار آدمی جو تیس سال کا ہوگا کیساتھ کرنا ٹھیک نہیں ہے اور دوسرے لڑکی کیلیے چودہ پندرہ سال کا لڑکا ڈھونڈنا اسی طرح مشکل ہوگا جس طرح اپنے لڑکے کیلیے اسی عمر کی لڑکی کو اپنے گھر لانا۔
اس مسئلے کا حل ہے مگر اس پر عمل کرنے سے ہماری برادری میں ناک کٹ جائے گی۔ حال سیدھا سا ہے یعنی جوان لڑکے کی شادی سادگی سے کردو اور اپنی بہو کو بیٹي بنا کر گھر رکھ لو۔ ہاں انہیں اتنا سمجھا دو کہ بچے تب تک پیدا نہیں کرنے جب تک وہ ان کا خرچ اٹھانے کے قابل نہ ہوجائیں۔ اس طرح دونوں لڑکی لڑکے کی جنسی تسکین کی خواہش بھی پوری ہوتی رہے گی اور دونوں اپنی زندگی کی کامیابی کیلیے کوشش بھی کرتے رہیں گے۔ ہم مانتے ہیں کہ اس عمر کی شادی کے اور بہت سارے نقصانات ہیں مگر حرام کاری سے بچنے کیلے وہ نقصانات برداشت کیے جاسکتے ہیں۔ اگر اس طرح ہم اپنے بچوں کی شادیاں کرنا شروع کردیں تو پھر آدمی عورتوں کو گھورنا بند کردیں گے۔ ہمارے انگریزی کے استاد کہا کرتے تھے “اگر سولہ سال کے لڑکے کی شادی کسی کالی کلوٹی اور بدصورت لڑکی سے بھی کردی جائے تو وہ اسے نبھا لے گا کیونکہ اس وقت وہ جنسی تسکین کا طلبگار ہوتا ہے اور وہ اسے حاصل ہوجاتی ہے۔ یہ جنسی تسکین ہی ہے جو میاں بیوی کے درمیان محبت کا ایسا لازوال رشتہ قائم کرتی ہے کہ وہ مرتے دم تک ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے ہیں۔
کہتے ہیں ہم نے پاکستانی معاشرے میں نکاح مشکل بنا دیا ہوا ہے اور زناہ آسان۔ نکاح کیلیے آپ کو ہزاروں لاکھوں روپوں کی ضرورت پڑتی ہے اور زناہ کیلیے دو چار سو ہی کافی ہیں۔ اسلیے اگر گھورنے کی عادت ختم کرنی ہے تو ہمیں نکاح کوآسان بنانا ہوگا
ہم مانتے ہیں نبی پاک صلعم کے اس حکم پر عمل کرنا فی زمانہ نہ صرف مشکل ہوچکا ہے بلکہ ناممکن بھی۔ اسی لیے شاید نبی پاک صلعم نے حرام کاری کی سخت سزا تجویز کی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گھورنے کی عادت کو تربیت سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ ہم اس بات کونہیں مانتے۔ کیونکہ اگر تربیت ہی سے معاشرہ سدھر سکتا تو پھر اسلام سمیت تمام مذاہب گناہوں کی سزائیں تجویز نہ کرتے اور نہ ہی بعد الموت جنت دوزخ کا خیال پیش کرتے۔
انسانی معاشرہ جتنا بھی مہذب ہو وہ قوانین و ضوابط کے بغیر چل نہیں سکتا۔ اگر آج پاکستانی حکومت پولیس اور جسٹس سسٹم کو ٹھیک کردے تو آدمی عورتوں کو گھورنا بند کریں گے کیونکہ انہیں معلوم ہوگا کہ گھورنے والی آنکھ پھوڑ دی جائے گی۔ قانون کی عملداری اگر قائم ہو تو پھر لڑکی بھی شکایت درج کراتے ہوئے نہیں ڈرے گی۔ آجکل تو لاقانونیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اکیلی عورت کسی کیخلاف مقدمہ درج کرانے تھانے جانے کا نام تک نہیں لیتی۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ تھانے والے اس کی شکایت بعد میں درج کریں گے پہلے اپنی جنسی تسکین کیلیے اس کی عزت لوٹ لیں گے۔ اگر معاشرے سے رشوت اور سفارش ختم کردی جائے اور لوگوں کو انصاف ان کی دہلیز تک پہنچایا جائے تو پھر گھورنا بند ہوجائے گا۔ قانون کے ڈر سے لوگ مہذب بھی ہوجائیں گے اور شرافت بھی ان کے چہرے سے ٹپکنے لگے گی۔
اب آپ بتائیں کہ یہ دونوں حل کیا قابل عمل ہیں؟ نہیں ہیں ناں۔ اس لیے کہ نہ تو پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہے اور نہ ہی قانون۔ فوجی افسر ہوں یا سول ایلیٹ سب حرام کاریوں میں ملوث ہیں۔ قانون امیروں کے گھر کی باندی بن چکا ہے اور یہی وجہ ہے غریب آدمی صرف گھور کر اپنی جنسی تسکین حاصل کررہا ہے۔ اگر آج غریب کو بھی معلوم ہوجائے کہ قانون اسے بھی کچھ نہیں کہے گا تو وہ بھی امیروں کی طرح جنس مخالف کی عزت پر ہاتھ ڈالنا شروع کردے گا۔
حضرت عمر کے دور میں فوجیوں کو چار ماہ سے زیادہ گھر سے باہر نہیں رکھا جاتا تھا اور یہ میعاد بھی انہوں نے اپنی بیٹی سے پوچھ کر مقرر کی تھی۔ آج کے دور میں بھی یہ ثابت ہوچکا ہے کہ فوجی اگر گھر سے زیادہ دن دور رہیں تو وہ حرام کاریوں میں پڑجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی فوج نے ویتنام کی جنگ کے دوران ہزاروں امریکن ویتنامی بچے پیدا کیے جو وہ وہیں چھوڑ کر آگئے۔ یہی وطیرہ باقی ملکوں کے فوجی بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ان کی بیویاں بھی اتنی لمبی جدائی برداشت نہیں کرسکتیں۔ وہ یا تو طلاق لے کر کسی اور سے شادی کرلیتی ہیں یا پھر کرپشن کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ہم لوگوں کو بھی جوان بیویاں گھر چھوڑ کر باہر روزی کمانے کی لعنت سے بچنا ہوگا۔ مانا کہ معاشی مجبوریاں آدمی کو گھر چھوڑنے پر مجبور کرتی ہیں مگر ایسی دولت سے کنگال ہونا بہتر ہے جس کے بدلے آپ کی عزت لٹ جائے۔ آدمی اگر ہمت کرے تو وہ اپنی روزی روٹی ہرجگہ کما سکتا ہے اس کیلیے دوسرے ممالک ہجرت کرنا لازمی نہیں۔ ہاں اگر وہ جانا ہی چاہتا ہے تو پھر اپنی فیملی ساتھ لے کر جائے۔
جیسا کہ ہم پہلے چکے ہیں کہ اوپر بیان کردہ دونوں حل فی زمانہ مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہیں۔ اسلیے اب ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ ہے خود کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا۔ روشن خیالی کی جو لہر پاکستان میں آئی ہوئی ہے اور ٹیلی کمیونیکیشن نے جو انقلاب پیدا کیا ہے اس سے معاشرہ مغربیت کی طرف تیزی سے پیش قدمی کررہا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب بوائے فریند گرل فرینڈ کا کلچر عام ہوجائے گا اور لڑکے لڑکیاں سرعام ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھوم پھر رہے ہوں گے تب گھورنے کی عادت ختم ہوجائے گی۔
10 users commented in " عورتوں کو گھورنا – آخری قسط "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکافی خطرناک حل پیش کیا ہے آپ نے۔۔۔۔۔۔ آپ یہ دیکھئے کہ اگر ایک لڑکا راہ چلتی عورتوں کو نہیں گھورتا لیکن جب وہ اپنی بہنوں کے ساتھ نکلتا ہے اور ان کو گھورا جاتا ہے تو وہ کیا کرے گا۔۔۔۔
مشکل کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہم خود اپنے لیے بنالیتے ہیں۔ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو روشنی بنالیا جائے اور سنِ بلوغت تک پہنچنے پر شادی کا بندوبست کردیا جائے تو ایسی صورتحال ہرگز پیدا نہ ہو۔ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ رخصتی کو صحیح وقت تک مؤخر کردیا جائے۔۔۔ تب تک لڑکا ذریعہ معاش صحیح کرلے لیکن یہاں تو نکاح کے بعد، رخصتی نہ ہو تو تب بھی لڑکا لڑکی کا ملنا برا خیال ہوتا ہے۔۔۔ کیا کریں۔۔۔ ہمارے اپنے ہی رسم و رواج ہیں نا جو ہمارے لیے مصیبت کھڑی کررہے ہیں۔۔۔ بیٹی کی شادی کرنی ہو تو دیکھیں گے کہ لڑکے کا اپنا گھر ہو، اچھا پڑھا لکھا ہو، پندرہ، بیس ہزار کماتا ہو۔۔۔ ایسے سپنے سجائیں گے تو یہی حال ہوگا۔۔۔۔۔۔ آوے کا آوا بگڑا ہے۔۔۔ ہر معاملہ کا از سرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
اسلیے اب ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ ہے خود کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا۔
wah kiyya hal nikaala hai…isay hee kehtay hain khoda pahaar nikla chooha bhee nahain 🙂
بہت ہی بہترین حل پیش کیا ہے آپ نے ۔ بہت بہت شکریہ
اس سلسلے میں، میں آپ کے تجویز کردہ حل سے متفق بھی ہوں لیکن جیسا کے آپ نے کہا کے ہمارے معاشرے میں زنا آسان اور نکاح مشکل بنا دیا گیا ہے اور پھر خواتین کے حقوق کی علمبردار خواتین ہی جلد شادی کی حامی نظرنہیں آتی ہیں۔۔ دوسری چیز یہ کے ایک تاثر اور ابھر کر سامنے آتا ہے جیسے جنسی خواہش صرف مرد کے ساتھ مخصوص ہے؟ ایسا تو نہیں ہے جنسی خواہش کی تسکین تو مرد و عورت میں کم و بیش یکساں ہی ہے تو پھر خواتین گھورنے کا فریضہ کیوں انجام نہیں دیتیں (عموما نہیں گھورتیں لیکن اگر کوئی مرد انہیں نہ گھورے یا دیکھے تو اسے مغرور کا خطاب ضرور عطا کر دیتی ہیں) ۔۔ پھر ہمارے یہاں (خصوصا بر صغیر میں) دوسری شادی کرنے کو انتہائی معیوب فعل سمجھا جانے لگا ہے کیا اس سے بھی کچھ سماجی برائیاں معاشرے میں جنم نہیں لے رہیں اور یہ بات تو اب ثابت شدہ ہے کہ بھارت کے علاوہ تقریبا تمام جگہوں پر خواتین مردوں سے زیادہ ہیں تو کچھ نہ کچھ لوگوں کو تو ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرنی ہی ہوگی؟ خواتین اس سلسلے میں کیا نقطہ نظر رکھتی ہیں ؟ اور کیا اس سے گھورنے کی یا عورتوں کو تنگ کرنے کی عادت پر کچھ قابو پایا جاسکتا ہے؟
آپ کی باتوں سے حسب توفیق متفق ہوں۔
حضرت عمر نے فوجیوں کی بیویوں سے نہیں اپنی بیٹی حضرت اسما سے پوچھ کر یہ حد مقرر کی تھی جو کہ تین ماہ نہیں بلکہ چار ماہ تھی۔
بدتمیز ٕنام کۓ صاحب تصیح کا شکریہ۔
اللہ کے بندو اگر شادی نہیں کر سکتے ہو تو شریعت کے حکم کے مطابق روزے رکھو اور ایک اچھا مسلمان روزے کی حالت میں کبھی بھی کسی عورت کی طرف گھور گھور کر نہیں دیکھے گا۔ مزید یہ ہے کہ اپنی زندگی کو اسان اور سادہ بنا لینے سے بہت سارے مسلے ختم ہو جاتے ہیں۔
ہر چیز میں توازن ہی ایک بہتر حل ہوتا ہے۔ نہ مغرب کی طرح مادر پدر آزادی بہتر ہے اور نہ ہی ایسی صورت حال کہ بندہ نکاح بھی نہ کر سکے۔اور کم عمری کی شادی میں مسائل زیادہ اور فوائد تھوڑے ہیں۔ لہذا شادی کے لیے لڑکے کی عمر کم از کم ۲۰ سال ہونی چاہیے۔
یہاں پر ایک اور بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ اسلام کی نظر میں شادی صرف جنسی تسکین کے لیے ہی نہی ہے بلکہ اس میں کچھ اور بھی حقوق و فرائض بھی ہیں۔
واہ سبحان اللہ!
اسلام میں وہ شادی شادی نہیں تصور کیا جاتی وہ نکاح ہی باطل ہوتا ہے جسکی بنیاد محض جنسی تسکین ہو۔ چہ جائیکہ اس بارے میں شادی کے بعد مر د اور عورت دونوں کے کے لئیے ایک دوسرے کو خوش رکھنے کے احکامات ہیں اور احادیث نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں بھی عورتوں اور مردوں کو نکاح کے بعد ایک دوسرے کو خوش رکھنے کی تاکید ہے۔مگر وہ نکاح باطل ہوجاتا ہے جسکی بنیاد محض جنسی تسکین ہو۔
مجھے یہ پوسٹ پڑھ کر حیرت ہوئی ہے۔ خواتین کو گھورنا گندی ذہنیت کی وجہ سے ہے۔ نا کہ جنسی تسکین سے۔ حضرتِ انسان کو جانور نہیں کہ عورت دیکھی اور ۔۔ عورت بُو ، عورت بُو کے نعرے لگاتے اسکے پیچھت بھاگ پڑے۔
محترم افضل صاحب۔ آپ نے ایک سیدھے سادھے مسعلے کو جسنی تسکین سے جوڑ دیا ہے۔ یہ فارمولا مغرب میں تو لاگو ہوتا ہے کہ وہ جنس اور جنسی فعل سے سنِ بلوغت سے ہی متعارف ہوجاتے ہیں۔ مگر ایک ایسے معاشرے میں جہاں کسی خاتون کو گھورنے پہ بعض اوقات مرنے مارنے کی نوبت آجاتی ہو۔ ایسے معاشرے میں تو نو عمر بیاہتا کئی جوڑوں کو آج بھی شادی کے بعد مباشرت کے بارے میں صحیح علم نہیں ہوتا۔ لڑکا تو دوست احباب سے کچھ نہ کچھ معلومات حاصل کر لیتا ہے مگر لڑکی بے چاری کو اگر کئی اسکی بڑی بہن یا رشتے دار عوت شادی سے عین کچھ دن پہلے کچھ باتیں نہ سمجھائے تو کئی مسائل اٹھتے ہیں۔
جہاں تک غیر عورتوں کو گھورنا ہے ۔ اسکا تعلق ، خواہ وہ کوئی لڑکا ہو یا شادی شدہ مرد، ایسے لوگ ایک طرح سے بیمار ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں۔ایسے مرد حضرات کا تعلق انتہائی گری ہوئی اور کمینی فطرت سے ہوتا ہے۔ اور عموما اسطرح کے لوگ زندگی کے کسی بھی میدان میں قابل اعتماد نہیں ہوتے۔ جو لوگ اپنے ماں باپ کی حلال اولاد ہیں وہ اسطرح کی گندی اور نیچی حرکت نہیں کرتے اور اگر انھیں شیطان کبھی بھٹکائے بھی تو اگلے لمحے سر جھٹک کر شیطان پہ لعنت بیھج دیتے ہیں۔
گھورنے سے شیطانی جنسی تسکین نہیں ہوتی بلکہ اس سے جنسی جزبات مزید بھڑکتے ہیں۔ جنگل میں، خلوت میں تو جنسی جذبات بھڑک جائیں تو پارسا انسان بھی جنسی بھوک کے ہاتھوں زنا جیسے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ مگر بازار میں آتی جاتی خواتیں کوگھورنے سے کونسی جنسی تسکین ہوتی ہے؟۔ یہ بیمار اور گندی فطرت کی غمازی ہے۔
اور ضروری نہیں کہ ہر کسی کا اپنا ذاتی تجربہ ہی معاشرے کی درست عکاسی ہو۔
اپنی اولاد کو شر و بد کی قوت کا مقابلہ کرنے کے لئیے نیک اخلاق سکھائیں۔ انکی اچھی تربیت کریں۔ اچھے برے کا فرق سمجھائیں ۔ وہ انشاءاللہ کبھی اسطرح کی گندی عادتوں میں ملوث نہیں ہونگے۔ خواتین کو گھورنا بہت بعد کی بات ہے۔
ہمارے ہاں ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ اگر اپنے گھر میں مائیں بہینیں ہیں تو دوسروں کی ماؤں بہنوں کو بھی عزت تکریم سے دیکھنا چاھئیے۔ یہ خیال انتہائی فرسودہ اور احمقانہ ہے۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ جس گھر میں بیٹی اور بہن ہوں وہاں گھر والے سانس بھی آہستہ لیتے ہیں۔کیونکہ ہمارے ہاں بیٹی اور بہن کے مقدس رشتے کو شرفاء کی کمزوری سمجھ لیا گیا ہے۔ مگرخواتین کو گھورنے یا نہ گھورنے کے لئیے ضروری نہیں کہ گھر میں بہن یا بیٹی ہی تو یہ کام نہیں کرنا چاہئیے ۔ بلکہ بنیادی خیال یہ ہونا چاھئیے کہ چونکہ یہ کام غیر شرعی ہے ۔ غیر اخلاقی ہے۔ اور بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے اسلئیے اس سے مرد حضرات کو اس سے اجتناب کرنا چاہئیے۔
اسلام میں اپنی عصمت کی حفاظت مردوں پہ بھی اتنی ہے لازمی ہے۔ جتنی عورتوں پہ لازم ہے۔
آسلام علیکم میرے بھایيو اور بھنوں اس کا ایک حل ہے کہ عورتیں کاٹن کپڑے کا پہننا بند کر دیں
Leave A Reply