ہمارے دور میں ایک سے بڑھ کر ایک مخلص اور بےلوث پروفیسر کالج میں موجود تھے۔ آج کل تو بقول ہمارے ایک استاد دوست کے ایک بھی استاد بےلوث اور اپنے پیشے سے پیار کرنے والا نہیں ملتا۔
پروفیسر لطیف کیمسڑی پڑھاتے تھے۔ ایک ان کی رنگت کالی تھی اور دوسرے چین سموکر ہونے کی وجہ سے ان کے ہونٹ بھی کالے ہوچکے تھے۔ شائستہ لباس پہننے والے سائیکل پر کالج آتے اور انتہائی محنت کیساتھ کلاس میں پڑھاتے۔
ہم ذاتی وجوہات کی بنا پر جب تعلیم کا سلسلہ چند ماہ منقطع رکھنے کے بعد ان کی کلاس میں دوبارہ داخل ہوئے تو ان کا پہلا جملہ یہی تھا “میں جانتا تھا کہ تم لوٹ کر ضرور آؤ گے”۔
ایک دفعہ کالج سےکئی میل دور لطیف صاحب نے ہمیں ایک دوست کیساتھ سائیکل پر گھومتے دیکھ لیا لیکن جب وہ کلاس میں پہنچے تو ہم پہلے سے موجود تھے۔ اس دن وہ بہت حیران ہوئے کہ ہم ان سے پہلے کلاس میں کیسے پہنچ گئے۔ اسی آوارہ گردی کی بنا پر انہوں نے کلاس میں ہمارا داخلہ ایک ماہ کیلے بند کردیا۔
لیکن جب ہم نے ایف ایس سی پری انجنئرنگ کا امتحان امتیازی نمبروں پاس کیا اور مٹھائی کی ٹوکری لے کر کالج پہنچے تو لطیف صاحب بہت خوش ہوئے اور انہوں نے ساری مٹھائی اپنے ساتھی اساتذہ میں یہ کہ کر بانٹ دی کہ ان کی توقع کے مطابق ان کے شاگرد کو انجنئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا تھا۔
لطیف صاحب انہتائی ایماندار اور خود دار انسان تھے۔ نہ انہوں نے لالچ دکھائی اور نہ کسی کے آگے دست دراز بلند کیا۔ انہوں نے اتنی ہی ٹیوشن پڑھائی جس سے ان کے اخراجات پورے ہوسکیں۔
پہلی شادی ان کی کافی دیر کے بعد ہوئی لیکن اس دیر کے ازالے کیلیے انہوں نے دوسری شادی بھی کرلی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے بیٹے نے ٹرانسپورٹ کا کاروبار شروع کیا اور ان کی جمع پونجی کو ضائع کردیا۔
پچھلے ہفتے ہم اپنے دوست کی والدہ کو اس کی ہمشیرہ کے گھر ملنے گئے تو پتہ چلا پروفیسر لطیف صاحب ان کے پڑوسی ہیں۔ ہم دوست کیساتھ ان سے ملنے چلے گئے۔ لطیف صاحب اسی پرانے انداز میں اب بھی دو لڑکوں کو ٹیوشن پڑھا رہے تھے۔ پہلے انہوں نے ہمیں بالکل نہیں پہچانا لیکن تعارف کے بعد ایک ایک کرکے تمام واقعات من و عن سنانے شروع کردیے۔
ہمارے رونگٹے اس وقت کھڑے ہو گئے جب پروفیسر صاحب نے اپنے ضعیف ہاتھ ہمارے آگے پھیلا دیے۔ کہنے لگے انہیں رقم کی شدید ضرورت ہے اور ہم ہی ان کی ضرورت پوری کرسکتے ہیں۔ ہم نے اپنی جیبیں ان کے آگے خالی کردیں اور جب لطیف صاحب سگریٹ سلگانے لگے تو ہم دھوئیں سے بچنے کیلیے مزید مدد کا وعدہ کرکے چلے آئے۔
بعد میں دوست کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ پتہ کرے کہ لطیف صاحب کو دی ہوئی رقم کہیں دوبارہ ان کے فرزند کی عیاشیوں کی نظر تو نہیں ہو جائے گی۔ وہ یہ بھی معلوم کرے گا کہ لطیف صاحب کو بڑھاپے اور اولاد کی محبت نے کہیں مانگنے کی عادت تو نہیں ڈال دی۔ کیونکہ ہمیں اب تک یقین نہیں آرہا کہ ایک خود دار چوہدری اس طرح مالی مدد کیلیے ہاتھ پھیلا سکتا ہے۔ لطیف صاحب نے اپنی بیماری کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ اب ان کی انگلیوں کو قلم بھی بوجھ لگتا ہے۔
زمانہ کتنا ظالم ہے جوانی میں انسان کو ہوا کے گھوڑے پر سوار کردیتا ہے اور بڑھاپے میں انا کی دھجیاں اڑا دیتا ہے۔ انسان اولاد پیدا کرتا ہے، پھر اسے جوان کرتا ہے اور جب پھل کھانے کا وقت آتا ہے تو بعض اوقات درخت بانجھ ہوجاتا ہے۔
2 users commented in " کیسے کیسے لوگ – پروفیسر لطیف چوہدری "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمحترم!
آپکی یہ تحریر ہنوز ادہوری اور تشنہ ہے کہ آخر پروفیسر موصوف کو کیا معاملہ ہوا کہ انہیں دست سوال دراز کرنا پڑا؟ – آپ کے دوست نے آپ کی ھدایت پہ کیا کھوج لگایا؟؟ اور نتیجے کے طور پہ آپ نے کیا رائے قائم کی؟؟؟
والسلام
جاوید گوندل – بارسیلونآ، اسپین
محترم
ہم میںیہ جاننے کی ہمت ہی نہیںہوئی کہ پروفیسر صاحب کو دست سوال کیوں دراز کرنا پڑا۔ دوسرے دوست نے پروفیسر صاحب کے بارے میںمیزید معلومات حاصل کیںجو کچھ حوصلہ افزا نہیںتھیں۔ ہم اسی رائے پر قائم ہیںجو ہم نے تحریر کے اختتام پر دی ہے یعنی بیکار اولاد انسان کے بڑھاپے کو خراب کر دیتی ہے۔
Leave A Reply