اجمل صاحب کی تحریر پر ایک تبصرے میں ہمارے ایک بہت ہی پیارے بلاگر محب علوی صاحب نے غیرممالک میں مقیم پاکستانیوں کو کچھ اس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے۔
اصل میں بد قمستی سے بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو یہ خبط ہے کہ وہ اپنے ملک میں کیڑے نکالنے سے باز نہیں آتے اور نا سمجھی میں خود کو ہی برا بنا لیتے ہیں کہ وہ چاہے کچھ بھی کر لیں ان کی پہچان پاکستان ہی رہے گا۔ اپنی آنکھ کا تنکا بھی انہیں شہتیر نظر آتا ہے اور جہاں رہتے ہیں وہاں رات دن زنا بالجبر کے بعد قتل کے بڑھتے واقعات نظر نہیں آتے انہیں البتہ پاکستان میں گھورنے پر انہیں سخت تشویش اور کوفت لاحق ہو جاتی ہے مگر سر عام بوس و کنار اور جانوروں سے بدتر حالت میں شرم و حیا اتار کر جنسی افعال پر انہیں مسئلہ نہیں ہوتا۔
پہلی بات ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے گوش گزار کردیں کہ اوورسیزپاکستانی اپنے ملک پاکستان سے بے پناہ محبت کرتےہیں اور اس کا ثبوت یہی ہے کہ جہاں دو پاکستانی کھڑے ہوں گے وہ پاکستان کی بات ضرور کریں گے۔ اب دنیا سمٹ کر گلوبل ولیج بن چکی ہے اور دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں پاکستانی آباد نہ ہوں اور وہ پاکستان کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کام نہ دے رہے ہوں۔
اگر اوورسیزپاکستانی اپنے معاشرے کی برائیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور یورپی معاشرے کی اچھائیوں کی بات کرتے ہیں تو اس کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ وہ پاکستان کیخلاف ہیں اور یورپ کی حمایت کررہے ہیں بلکہ ان کا مطلب صرف اور صرف ایک معاشرے کی اچھائیوں کو اچھال کر دوسرے معاشرے کو باور کرانا ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنے اندر یہ اچھائیاں پیدا کرسکتے ہیں۔ مثلا ہماری تازہ تحریر پلاسٹک کے تھیلے اور سوریج سسٹم میں اگر ہم نے دونوں معاشروں کا موازنہ کیا ہے تو اس کا مطلب صرف اور صرف حکومت اور معاشرے کو غیرت دلانا ہے کہ جو کام یورپین کرسکتے ہیں وہ ہم پاکستانی بھی کرسکتے ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کو یورپ کے مقابلے میں ذلیل و رسوا کیا جائے۔
اوورسیز پاکستانیوں کو دوسروں پر اسلیے برتری حاصل ہوتی ہے کہ وہ تصویر کے دونوں رخ دیکھ چکے ہوتے ہیں اور دونوں معاشروں کا موازنہ بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔ ہم اکثر یہ بات لکھ چکے ہیں کہ ہمارے علما اور مدبر جس طرح یورپین معاشرے کے بگاڑ کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے ان میں سچائی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ یورپ میں بےحیائی اگر ہے تو دونوں اصناف کی مرضی سے ہوتی ہے یعنی ہم بستری وغیرہ لڑکی کی مرضی سے ہوتی ہےاور اگر کوئی زبردستی کرنے کی کوشش کرے تو قانون اس کو پکڑ لیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکی معاشرے میں سرعام بوس و کنار نہ ہونے کے برابر ہے۔ نہ ہی لوگ سرعام شراب پیتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی غل غپاڑہ کرتے ہیں۔ بلکہ شراب کی بوتل پکڑ کر چلنا بھی جرم ہے۔ ہاں لوگ اپنے گھروں میں جو چاہے کرتے پھریں اس سے کسی کو سروکار نہیں ہے۔
اس کے برعکس پاکستانی معاشرہ جو اسلامی معاشرہ کہلاتا ہے یورپ کے مقابلے میں زیادہ انحطاط پذیر ہے۔ اغوا چوری ڈاکے اور قتل اب پہلے سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ ابھی چند روز قبل گلوکار علی ظفر اور اس کی منگیترکو اغوا کیا گیا اور پھر پچیس لاکھ روپے لے کر چھوڑا گیا۔ اس طرح کے واقعات یورپ میں بہت کم ہیں۔ یورپ اور پاکستانی معاشرے میں صرف اتنا فرق ہے کہ پاکستان میں لاقانونیت ہے اور یورپ میں قانون کی عملداری ہے۔ یورپ میں عام آدمی کے چھوٹے چھوٹے کام بغیر رشوت اور سفارش کے آسانی سے ہوجاتے ہیں اور پاکستان میں مشکل سے۔
آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ اوورسیز پاکستانیوں کی نیت پر شک کرنا کم عقلی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت بلاگنگ کرتی ہے اور چیٹ رومز میں نظر آتی ہے اور ہر طرف ان کی پاکستان کیساتھ محبت دیدنی ہوتی ہے۔
نوٹ – اجمل صاحب کی تحریر پر ماوراء کا تبصرہ ہمارے نقطہء نظر کی عکاسی کررہا ہے۔ اسے بھی ایک نظر دیکھ لیجیے۔
12 users commented in " بیرون ملک مقیم پاکستانی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackشکریہ افضل صاحب۔آپ نے اچھے طریقے سے وضاحت کی ہے۔ اجمل انکل کی پوسٹ پڑھ کر اور محب کا کمنٹ پڑھ کر اسی وقت میں نے اجمل انکل کے بلاگ پر کمنٹ کر دیا۔ آپ کی پوسٹ اب دیکھی۔
لیکن۔۔۔۔۔۔
—
[[یہ حقیقت ہے کہ امریکی معاشرے میں سرعام بوس و کنار نہ ہونے کے برابر ہے۔ نہ ہی لوگ سرعام شراب پیتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی غل غپاڑہ کرتے ہیں۔ بلکہ شراب کی بوتل پکڑ کر چلنا بھی جرم ہے۔ ہاں لوگ اپنے گھروں میں جو چاہے کرتے پھریں اس سے کسی کو سروکار نہیں ہے۔]]
—
کیا امریکہ میں واقعی ایسا ہے؟
پاکستانی عوام کے اخلاق اور یوروپی اقوام بالخصوص جرمنی فرانس ناروے سوئڈن کے اخلاق میں ذمین آسمان کا فرق ہے ۔ فحاشی اور سود کو ھٹا کر دیکھیں تو یورپ ہی اسلامی معاشرے کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔
ہاں ماورا نیویارک میں ایسا ہی ہے ، بلکہ نیویارک میں جوا کھیلنا بھی جرم ہے اس لئے پوری ریاست نیویارک میں ایک بھی کیسنو نہیں ہے ۔ شراب یا بیئر آپ سرعام نہیں پی سکتے بلکہ اُن کی بوتل بھی اگر لے کر جانی ہے تو وہ بیگ میں لپٹی ہونا چاہیے ۔ بوس و کنار دو طرح کا ہوتا ہے ایک جو یہاں Greet کرنے کے زمرہ میں آتا ہے اور دوسرا Sexual . پہلے والا تو ہر جگہ نظر آتا ہے لیکن دوسرے والا ویک اینڈ پر شاذ و ناذر کہیں نظر آ جائے ۔
ہر شخص اپنے تجربے اور اپنی سوچ کے مطابق بات کرتا ہے ۔ آپ بھی درست کہتے ہیں اور محب علوی صاحب نے بھی غلط نہیں لکھا ۔
السلامُ عليکُم
اُمّيد ہے آپ سب بخير ہوں گے اجمل انکل کے بلاگ پر جو بحث شرُوع ہُوئ آج ميرا پاکستان کھولا تو وہاں بھی اسی بات کی بازگشت سنی تو سوچا اپنا حصّہ يا حق ضرُور استعمال کرُوں ماوراء اور باقی سب محترمين بات صرف يہ ہے کہ انسان کی فطرت ميں تجسس ہوتا ہے ہمارے مُلک ميں يا مُلک کے لوگوں ميں عورت کو گُھورنے کی عادت صرف اس وجہ سے ہے کہ ہميں بچپن سے يہی سکھايا گيا ہے کہ نظريں نيچی رکھو لڑکيوں سے بات نہيں کرنی سو جہاں کبھی موقع ملتا ہے بے چارے مرد حضرات رہ نہيں سکتے اور اگر آپ نے غور کيا ہو تو يا بہت اُوپر والے طبقے کے لوگ يا بالکُل نيچے طبقے کے لوگوں ميں ايک مماثلت ہوتی ہے کسی بھی بات کی کوئ پرواہ نہيں کسی بھی طرح کے رشتے اور تعلُقات بہت آرام سے اُستوار کرنے کی بات ہو يا لباس کے معاملے ميں بے پرواہی ہوہم درميانے طبقے کے لوگ ان معاملوں ميں جس طرح کی احتياط کرتے ہيں خُود کو ڈھک کر رکھنا ہے بچا کر رکھنا ہے حجاب ،نقاب يا عبايا وغيرہ کا استعمال ،ليکن پھر بھی جو بات اصل ہے وہ يہ کہ ہم بلا وجہ ہی اپنے لوگوں پر بہتان کی بات نہيں کرتے ہيں حقيقت يہی ہے ہونا تو يہ چاہيئے کہ دُوسرے مُلک ميں ہم لوگوں کو اگر کوئ پاکستانی خاتُون نظر آجاۓ تو اُس کا احترام دُوسروں سے بھی بڑھ کر کريں ليکن ايمان سے ہوتا اس کے بالکُل برعکس ہے ميں پندرہ برس سے يو اے ای ميں ہُوں اس سے پہلے سعُوديہ اور مسقط بھی رہی ہُوں ميرے شوہر کي جاب شرُوع سے ہي ايسي ہے کہ گھر سے زيادہ وہ فيلڈ ميں ہوتے ہيں اور مُجھے بالکُل اکيلا رہنا پڑتا ہے ليکن کبھي معمُولي سا بھي خوف محسُوس نہيں ہُواکسی بھی وقت کہيں آنا جانا ہو بہت سہُولت اور آرام سے آ جا سکتے ہيں يہاں گروسری کی اشياء گھروں ميں ڈيليور کرنے کا رواج بھی ہے اور سبھی انڈين ہيں اس کام ميں ليکن پيسے واپس ديتے يا ليتے وقت دو اُنگليوں سے اُوپر سے پيسے پھينکتے ہيں جبکہ ہمارے اپنے پاکستانی بھائيوں کے پُوری کوشش ہوتی ہے کسی طرح ہاتھ چُھو جاۓ باہر اگر اکيلے نکلو تو خطرہ اپنے ہموطنوں سے ہی ہوتا ہے کہ اس بُری طرح ديکھتے ہيں کہ بندہ گھبرا جاتا ہے جبکہ باقی لوگوں کو کوئ پرواہ بھی نہيں ہوتی ميں لندن جرمنی کينيڈا وغيرہ بھی گئ ہُوں ليکن وہاں بھی صُورتحال اتنی خراب نہيں اگر کُچھ غلط ہوگا بھی تو صرف اُسی صُورت ميں کہ دونوں فريق کی رضامندی شامل ہوجبکہ ہم لوگ تو شايد دل پشوری کرنے کے لۓ سامنے والے کو ہراساں کرتے ہيں ميں يہ صرف ا پنے لوگوں کی بُرائ براۓ بُرائ کے طور پر نہيں کہہ رہی بلکہ شرمندگی ہوتی ہے يہ سب کہہ کر بھی ،باقی دُنيا ميں جو کُچھ ہوتا ہے وہ اُنکے معاشرے اور کلچر کے حساب سے ہے اور شايد ہمارے حضرات جو کُچھ کرتے ہيں وہ اپنے کلچر کے حساب سے ہے سو حساب برابر
بہر حال دل بُرا نا کريں اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں ميں
اللہ حافظ
شاہدہ اکرم
شکریہ جہانزیب، سرِ عام یا جابز وغیرہ پر تو واقعی شراب پینے کی اجازت نہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اکثر رات کو بہت شرابی ہوتے ہیں۔ اور پولیس ان کو سنبھالتی پھرتی ہے۔ اور خاص مواقعوں میں بھی اجازت ہوتی ہے۔ اور بوس و کنار کی پہلی قسم کا ہی میں سمجھی تھی کہ شاید امریکہ اس بیماری سے پاک ہے۔ اس لیے پوچھ لیا۔ 😀
افصل صاحب اور باقی تمام معزز ممبران سے گزارش ہے کہ وہ لکھتے وقت تھوڑا سا نکتہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کر لیں تو بات چیت میں کافی آسانی ہو۔
جس طرح آپ سب نے لکھا اس کے مطابق یورپ ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اچھی خاصی جنت کا منظر پیش کرتے ہیں اور وہاں عورت اور مرد حضرات بہت محفوظ اور امن سکون سے رہتے ہیں شاذ و نادر کہیں کسی کو کوئی مشکل پیش آتی ہے اور عورتیں تو بالکل جنت میں ہیں پاکستان کے مقابلے میں۔ اگر کوئی مرد غلط حرکت کرتا ہے تو وہ یا تو پاکستانی ہوتا ہے یا اس کا پاکستان سے کوئی تعلق ضرور ہوتا ہے ورنہ باقی مرد حضرات شرافت کا پیکر اور بہت مہذب ہوتے ہیں جبکہ پاکستانی مردوں کو ایک ہی کام ہے
لڑکیوں کو بری طرح سے گھورنا اور ان پر جملے کسنا اور کسی طرح ان سے قربت پیدا کرنا جبکہ لڑکیوں انتہائی کوشش کرتی ہیں مگر پاکستانی مرد اپنی ان حرکات سے باز نہیں آتے اور ہمہ وقت اسی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ پاکستان میں تو ہر وقت وہ یہی حرکات کرتے ہی رہتے ہیں بیرون ملک جا کر بھی سبق نہیں سیکھتے اور یہی کچھ کرتے رہتے ہیں۔
انشاءللہ میں ان تمام موضوعات پر لکھوں گا اور تفصیل تحقیق اور شماریات کے ساتھ اورمیں چاہوں گا کہ آپ لوگ بھی باتوں کی بجائے تحقیق اور شماریات اکھٹے کرکے لکھیں اور ہاں پاکستان سے محبت کا بہت شکریہ آپ لوگ کافی نام روشن کر رہے ہیں پاکستان کا پاکستان کے مردوں کی جملہ خوبیاں نمایاں کرکے اور دوسرے مرد حضرات کو پاکباز ثابت کرکے۔
ویسے افضل صاحب آپ بھی پاکستانی ہیں کیا اور اگر ہیں تو کیا آپ بھی وہی کچھ کرتے ہیں جس کی طرف شاہدہ صاحبہ نے اشارہ کیا ہے یا آپ ان سے کچھ اختلاف رکھتے کرنے کی جرات رکھتے ہیں یا میں ہی انہیں بھی جواب دوں؟
اور ہاں مجھے یاد آیا کسی دشمن کو پاکستان کے بارے میں لکھنے یا کیچڑ اچھالنے کی کیا ضرورت ہے ماشاءللہ ہم یہ کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں اور دے رہے ہیں۔
انشاءللہ بیرون ممالک مبصرین ہمارے بلاگ اٹھا کر ہمارے منہ پر دے ماریں گے اور آرام سے کہہ سکتے ہیں کہ بھائی یہ آپ کے ہی لوگ ہیں اور وہ آپ ہی کے بارے میں یہ حقائق بیان کر رہے ہیں تو جب ہم آپ کو برا کہتے ہیں تو برا کیوں لگتا ہے
ویسے حق ہے کہ وہ جب برا کہیں تو مجھے برا نہیں لگتا کیونکہ وہ بیچارے سچے ہیں ہمارے بیرون ملک پاکستانی بہن بھائی چلتے پھرتے پاکستان کے ناقد اور پاکستان کی جملہ برائیوں کے مفسر اور تبصرہ نگار ہیں تو ملک کا تاثر اتنا برا کیوں ہے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔
ماشاءللہ آپ لوگ اسی طرح اپنے جذبات اور تبصرہ جات سے ملک کی خدمت جاری رکھیں۔
“افصل صاحب اور باقی تمام معزز ممبران سے گزارش ہے کہ وہ لکھتے وقت تھوڑا سا نکتہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کر لیں تو بات چیت میں کافی آسانی ہو۔“
muhib aik tum hee samajhdaar hu, baqee sab bewaqoof hain.
محب صاحب
آپ نے اپنا نقطہ نظر بیان کردیا اور ہم نے اپنا اب فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
ویسے آپ کی تحقیق اور شماریات سے بھرپور تحریر کا انتظار رہے گا۔
ضرور کیوں نہیں مگر اس میںکچھ وقت لگے گا کیونکہ تحقیق کرکے لکھنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔
سب سے ا
عورت سے متعلق مغربی اور پاکستانی مردوں کے رویے میں اتنا فرق اس لئے ہے کہ ۔۔ مغرب میں مردوں کو اپنی جائز یا نا جائز خواہشات پورا کرنے کی آزادی ہوتی ہے ان کو چھپ کر کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔ جبکہ پاکتان میں بچپن ہی سے پرورش تو شرم و حیا کے اصولوں پر کی جاتی ہے لیکن ٹی وی پر ان کو دنیا جہاں کی برائیاں دیکھنے کے لئے میسر ہوتی ہیں پڑھنے کے لئے ہر قسم کا بیہودہ مواد مل جاتا ہے ۔۔ ایسے میں وہ کہاں تک اپنے اخلاق و کردار کی حفاظت کر پائیں ۔۔۔ تو وہ اس ہی طرح چور دروازوں سے اپنی خواہشات پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔
لیکن پہرحال اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں ۔۔ یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں کہ سب پاکستانی مرد برے ہوتے ہیں ۔۔ یا یہاں پر عورتیں بالکل ہی غیر محفوظ ہیں ۔۔۔ میں بھی پاکستان میں رہتی ہوں۔ سو میں سے 20 مرد ایسے ہونگے جو ایسی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں ۔۔ سب کو برا کہنا ٹھیک نہیں ہے ۔۔
Leave A Reply