ہمارے ایک دوست جو سکول ٹیچر ہیں نے جب اپنی آپ بیتی سنائی تو ہمیں جاوید چوہدری کے سابق وزیر قانون افتخار گیلانی پر لکھے ہوئے دو تازہ کالم یاد آگئے۔ افتخار گیلانی کو پچھلے ہفتے جب اے ایس پی نے اپلائیڈ فار گاڑی چلاتے ہوئے روکا اور کاغذات مانگے تو افتخار گیلانی نے کاغذات دکھانے کی بجائے اسے چند روز بعد ٹرانسفر کرادیا۔ یعنی افتخار گیلانی قانون پر عملدرآمد کرانے والے کیخلاف جتنی طاقت استعمال کرسکتے تھے انہوں نے کرلی۔
ہمارے دوست کے ایک قریبی دوست کے بھائی کو چند سال قبل قرض کی ضرورت پڑی تو اس نے اپنے بھائی کی سفارش پر دوست کی سرکاری ملازمت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی ضمانت پر پانچ لاکھ روپے بنک سے قرض اٹھا لیا۔ بڑے ناقرض دہندگان کی طرح وہ بھی قرض لے کر بھول گیا۔ جب مشرف کی حکومت آئی تو اس فوجی حکومت نے بھی اپنے پیشرو حکمران جنرلوں کی طرح دکھاوے کیلیے قرض کی وصولی کی مہم شروع کردی۔ بڑی مچھلیاں تو لوٹے بن کر حکومت میں شامل ہوگئیں اور ان کے قرض معاف ہوگئے مگر چھوٹی مچھلیوں کی شامت آگئی۔
جب بنک والوں کے ہاتھ قرض لینے والا نہ آيا تو انہوں نے پولیس کی مدد سے ہمارے دوست کو پکڑا اور تھانے لے گئے۔ تھانیدار شریف آدمی تھا اس نے جب دیکھا کہ ماسٹر قرض نہیں دے پائے گا تو اس نے اسے اس شرط پر چھوڑ دیا کہ وہ اصل مقروض کو پولیس کے حوالے کرے گا۔ تھانیدار نے اسے تین دن کا وقت دیا۔
دو دن تو مقروض کو ڈھونڈتے اور اسے مناتے گزر گئے کہ وہ قرض ادا کردے یا پھر تھانے چلے تاکہ دوست کی جان چھوٹ جائے۔ جب اس نے دیکھا کہ مقروض تو پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہا تو تیسرے دن اس نے تنگ آ کر شہر کے ایک بدمعاش طاہری شاہ سے رابطہ کیا۔ یہ بدمعاش شہر کے بڑے بدمعاش سابق ایم این اے منظور شاہ کا بھتیجا تھا۔ دراصل اس واقعے سے کچھ عرصہ قبل ہمارا دوست ان بدمعاشوں کے گھر ٹیوشن پڑھایا کرتا تھا اور طاہری شاہ بھی اس کا شاگرد تھا۔ طاہری شاہ نے اسے کہا ماسٹر جی آپ جاکر مقروض کو تلاش کریں اور پھر ہمیں اطلاع کردیں۔
مقروض ہمارے دوست کو ایک دکان پر مل گیا اور اس نے اپنے شاگرد کو اطلاع کردی۔ طاہری شاہ اپنے چند دوستوں کیساتھ گاڑی میں وہاں پہنچ گیا۔ انہوں نے مقروض کو ہاتھوں اور ٹانگوں سے پکڑا اور مردے کی طرح گاڑی میں پھینک دیا۔ مقروض نے بہت منتیں کیں مگر طاہری شاہ نے کہا کہ اب بات تھانے جاکر ہی ہوگی۔ تھانے جاکر طاہری شاہ نے اپنا تعارف کرایا اور تھایندار سے کہا کہ آپ کا ملزم حاضر ہے اور اسے تب چھوڑنا جب یہ قرض کی ساری رقم واپس کردے۔ مقروض چند روز تھانے رہا اور رقم دے کر رہا ہوا۔
دوست کہنے لگا کہ میرے لیے تو بدمعاش طاہری شاہ ہی اچھا تھا جس نے بروقت میری مدد کی۔ اگر وہ نہ ہوتا تو میں ساری عمر کورٹ کچہری کے چکر لگاتا رہتا اور جان پھر بھی نہ چھوٹتی۔ دوست کی بدقسمتی کہ طاہری شاہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے جلد ہی قتل ہوگیا۔ وہ کیسے قتل ہوا یہ پھر سہی۔
آخ کل پاکستان میں یہی مانا جاتا ہے کہ خدا وہی ہے جس کے پاس طاقت ہے۔ بغیر طاقت کے غریب کی کوئی نہیں سنتا۔ لوگ بدمعاشوں کو اس لیے اچھا کہتے ہیں کہ وہ بروقت ان کے کام آجاتے ہیں۔ کوئی بھی موجودہ سسٹم پر اعتبار نہیں کرتا کیونکہ پاکستان میں انصاف نام کی چیز ہے ہی نہیں۔
انصاف حاصل کرنے کیلیے جس طرح طاقت ناگزیر ہوچکی ہے اسی طرح موجودہ سسٹم کو بدلنے کیلیے بھی عوامی طاقت کی ضرورت ہے۔ جب تک لوگ خود سسٹم کو بدلنے کیلیے باہر نہیں نکلیں گے طاقت ہی خدا بنی رہے گی۔
No user commented in " کیسے کیسے لوگ – طاقت ہی خدا ہے "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply