دوست سے فون پر بات ہورہی تھی تو اس نے بتایا کہ ہمارا ایک مشترکہ سابقہ دوست اعجاز گولی لگنے سے فوت ہوگیا ہے۔ بقول گھر والوں کے وہ گھر کی چھت پر بیٹھا تھا کہ کہیں سے گولی آکر اس کے سر پر لگی۔ پہلے گھر والوں نے سمجھا کہ اس کو برین ہیمریج ہوا ہے مگر ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے پتہ چلا کہ اس کی موت گولی لگنے سے ہوئی ہے۔
دس سال قبل ہم اپنے دوست کو ملنے گئے تو وہاں اعجاز بھی آگیا۔ ہمارے پوچھنے پر دوست نے بتایا کہ اعجاز نے ابھی ابھی لوہے کی ڈھلائی کا کام شروع کیا ہے اور وہ اس کا کاروبار سیٹ کرنے میں اس کی مدد کررہا ہے۔ ہمیں اعجاز بچپن کے بعد پہلی بارملا تھا۔ اس نے تو ہمیں نہیں پہچانا مگر ہم نے اسے پہچان لیا۔ ہم اسے پہچانتے کیسے نہیں، اس کیساتھ ہماری بچپن کی یادیں جو جڑی ہوئی تھیں۔
ہم جب پرائمری سکول میں پڑھتے تھے تو ہم جیسے سب سکول فیلو اکثر گھر سے دوپہر کا کھانا ٹفن کیریئر میں لایا کرتے تھے۔ یہ کھانا ہم تفریح کے وقت جی ٹی روڈ کے کنارے بنے پارک میں درخت کی چھاؤں میں کھایا کرتے تھے۔ ادھر ہی پانی کا سرکاری نلکہ لگا ہوتا تھا جس سے ہم اپنی پیاس بجھا لیتے تھے۔
اعجاز ہم سب کلاس فیلو سے مختلف اور امیر گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ وہ گھر سے کھانا لانے کی بجائے روزانہ نقدی لایا کرتا تھا۔ تفریح کے دوران وہ بیکری سے کبھی کیک خرید کر کھاتا تو کبھی بسکٹ۔ ہماری اور ایک کلاس فیلو محمد بوٹا کی اس کے ساتھ دوستی ہوگئی اور اس نے کیک اور بسکٹ ہمیں بھی کھلانے شروع کردیے۔ ایک دن اسے پتہ نہیں کیا سوجھی اس نے ہم دونوں کو حکم دیا کہ اب تک جتنے کیک اور بسکٹ ہم نے کھائے ہیں یا تو ہم ان کی قیمت ادا کریں یا پھر اس کی تختی دھویا کریں۔ رقم تو اپنے پاس تھی نہیں، اسلیے محمد بوٹا نے اس کی تختی دھونی شروع کردی مگر ہم نے انکار کردیا۔ اس نے ہم سے ہمارا بستہ چھینا اور گھر لے گیا۔ ہمارے ماموں اس کے محلے میں رہتے تھے اور اس کے باپ کو جانتے تھے۔ ہم انہیں ساتھ لے گئے اور اعجاز نے بستہ ہمیں واپس کردیا۔ اس کے بعد ہم نے اس سے ناطہ توڑ لیا۔
یہ قصہ اس دن ہم نے دوست کو سنایا اور کہا کہ اس سے ہوشیار رہنا۔ دوست پر اعجاز جادو کرچکا تھا اسلیے اس نے ہماری بات پر یقین نہیں کیا اور اعجاز کی مدد جاری رکھی۔ چند ماہ بعد دوست کے گاہکوں نے ایک ایک کرکے اس کیساتھ لین دین بند کرنا شروع کردیا۔ اس نے ٹوہ لگانے کیلیے اپنے ایک اور دوست کو پرانے گاہکوں کے پاس بھیجا۔ پتہ یہ چلا کہ اسی کا دوست اعجاز اس کے گاہک توڑ توڑ کر اپنا کاروبار بڑھا رہا ہے۔ اس کے بعد دوست نے بھی اعجاز کی نہ صرف مدد کرنا بند کردی بلکہ دوستی کو صرف ملنے جلنے تک محدود کردیا۔
یہ واقعہ ہمارے دوست نے ہر اس آدمی کو سنایا جو اس کا جاننے والا تھا۔ ایک دن جب ہماری اس کیساتھ ملاقات ہوئی تو اس نے ہمیں بھی اعجاز کے کارناموں سے آگاہ کیا اور اقرار کیا کہ اس نے ہماری بات نہ مان کر غلطی۔ واقعی سچ ہے کہ رسی جل جاتی ہے مگر اس کا بل نہیں جاتا یا یہ کہیں لیں کہ کتے کی دم سو سال حقے کی نالی میں ڈالے رکھیں تب بھی وہ تیڑھی ہی رہتی ہے یا پنجابی کی کہاوت ہے کہ پوتڑیاں دے وگڑے کدھی نہیں سدھرتے۔
اس وجہ سے اب بھی ہمیں اعجاز کی موت کی وجہ پر یقین نہیں آتا۔ ہمیں شک ہے کہ اعجاز کی بیوفائی سے تنگ آکر اس کے کسی نے اسے قتل کیا ہوگا یا پھر کسی پڑوسی نے ہی اس کو گولی مار دی ہوگی۔
ہم نے اور ہمارے دوست نے آج سے اعجاز کو معاف کیا۔ دعا کرتے ہیں کہ خدا اس کے سارے گناہ بخشے اور اسے جنت میں جگہ عطا فرمائے۔
No user commented in " کیسے کیسے لوگ ۔ خصلت نہیں بدلتی "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply