خدا خدا کرکے ووٹنگ کا وقت ختم ہوا اور امید کے برخلاف انتخابات زیادہ تر پرامن ہی رہے۔ ہمارے اعلان کے مطابق انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ انہوں نے بائیکاٹ کرکے غلطی کی۔ ہاں اگر اصولوں کی بنیاد پر دیکھا جائے تو انتخابات کا بائیکاٹ بنتا تھا مگر بائیکاٹ کا عمل محدود پیمانے پر ہونے کی وجہ سے اپنی اصل روح سے محروم رہا۔ وکلاء بھی اگر انتخابات کے بائیکاٹ کی بجائے حکومت مخالف کیمپ سے مہم چلاتے تو ان کی تحریک زیادہ کامیاب ہوتی۔ اسی طرح عمران خان اور جماعت اسلامی بائیکاٹ کی وجہ سے وقتی طور پرایوانوں کی سیاست سے باہر ہو گئے ہیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ انتخابات کے بعد احتجاجی تحریک چلے اور صدر مشرف کو ہٹا کر دوبارہ انتخابات ہوں یا پھر آنے والی حکومت وکلاء کی ڈیمانڈ پر عدلیہ کو بحال کردے تو بائیکاٹ کرنے والوں کو کامیابی ملے لیکن اس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔
حالانکہ اکثر بلاگرز نے انتخابات میں دھاندلی کی نشاندہی کی ہے اور ان کی شفافیت پر شک کا اظہار کیا ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ ہر پارٹی کو اگر برابر کا حصہ مل گیا تو وہ انتخابات کے نتائج من و عن مان لے گی کیونکہ اسے ایوانوں میں جانے کی جلدی ہوگی۔ نتائج کے اعلان کے بعد سیاسی جوڑ توڑ کیا رنگ اختیار کرتا ہے یہ دیکھنے کے قابل ہوگا۔ اگر شیر اور تیر کو دھاندلی کی صورت میں بدترین شکست ہوئی تو پھر احتجاجی تحریک چلے گی اور صدر مشرف کو کرسی چھوڑنی پڑے گی لیکن اس کے بعد کوئی نہیں جانتا کہ مارشل لاء آئے گا یا جمہوریت بحال ہو گی۔
ان انتخابات پر ملک کے بیسیوں ٹی وی چینلز اور ریڈیوز کو بھی اپنی تاریخ کے سب سے بڑے پروگرام نشر کرنے کا موقع ملا۔ اس دفعہ ہر نیوز ٹی وی پر دوتین نہیں چھ سات تجزیہ نگار اور اینکر مین انتخابات پر بات کرتے اور ان کے نتائج سناتے نظر آئے۔ ٹی وی والوں نے ان پروگرامز کو دلچسپ بنانے کیلیے رنگا رنگ پروگرام بھی پیش کئے۔ ان پروگراموں نے پچھلے انتخابات میں سرکاری ٹی وی کی چوبیس چوبیس گھنٹے کی نشریات کی یاد تازہ کردی۔
کہتے ہیں ووٹ ڈالنے کیلیے لوگوں کی بہت بڑی تعدار گھروں سے باہر نکلی حالانکہ ہمارے عزیز و رشتہ داروں نے دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے بہت کم ووٹ ڈالے۔ زیادہ تر اپنے گھروں میں ہی دبکے بیٹھے رہے اور سلامتی کی دعائیں کرتے رہے۔
No user commented in " انتخابات 2008 "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply