اس دفعہ ماں کے حکم پر دو سال بعد جب ان کی خدمت میں حاضری دی تو انہوں نے بہت ساری کہاوتیں سنا کر ہمیں نصیحتیں کیں۔ ان میں ایک کہاوت جو ہمارے دل کو لگی وہ کچھ اس طرح تھی۔
ایک دفعہ عاشق نے آدھی رات کو اپنی محبوبہ کو گھر سے اسی کے باپ کی گھوڑی پر بھگانے کا پروگرام بنایا۔ عاشق نے لڑکی کو گھوڑی پر بٹھایا اور رات کے اندھیرے میں اپنے گاؤں کی طرف چل پڑا۔
راستے میں گھوڑی کو ٹھوکر لگی لیکن وہ سنبھل گئی۔ گھوڑی کے اس ٹھوکر لگنے کو پنجابی میں “نیوں لگانا” کہتے ہیں یعنی گھوڑی کمزوری یا پھر کسی اور وجہ سے کبھی کبھار اپنا پاؤں سیدھا نہیں رکھ پاتی، اس کے ناخن کا اگلا حصہ زمین پر لگتا ہے اور وہ لڑکھڑا جاتی ہے۔ اس عمل ميں کئی دفعہ گھوڑي گھڑسوار کو نیچے بھی گرا دیتی ہے۔ گھوڑی کی اس خصلت کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔
لڑکی نے اپنے محبوب سے کہا فکر کی کوئی بات نہیں اس کی ماں بھی “نیوں” لگایا کرتی تھی۔ محبوب نے معشوقہ کے منہ سے یہ الفاظ سنتے ہی گھوڑی کو واپس موڑا اور گھوڑی سمیت اسے گھر چھوڑ کر اپنے گاؤں واپس چلا گیا۔
اس نے سوچا آج اگر وہ کسی کی بیٹی کو بھگا کر لے جارہا ہے تو کل اس کی بیٹی کو بھی کوئی بھگا کر لے جائے گا۔ پھر لوگ کہیں گے کہ لڑکی نے بھاگ کر کوئی نیا کام نہیں کیا، اس کی ماں بھی اسی طرح گھر سے بھاگی تھی۔ یعنی برا کام کرنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ یہ بدنامی نسلوں تک پیچھا نہیں چھوڑے گی۔
ہم لوگ اپنے ارد گرد اس طرح کے کئی حادثات سے واقف ہوں گے جب ایک خاص واقعہ کسی خاندان سے منصوب ہو جاتا ہے بلکہ اس حادثے کی مناسبت سے اس کا نام پڑ جاتا ہے۔ “بلی مار” “چھری مار” “چڑی مار” “کب” یعنی لڑاکے “چوہے” “لنڈخور” وغیرہ شاید ایسے ہی حادثات کی وجہ سے خاندانوں کے نام پڑے ہوں گے۔
ایک دفعہ ہمارے بھائی نے اپنے دوست کے ہاتھ دبئی سے فرانسیسی گلاس بھیجے جو بہت خوبصورت تھے۔ دوست کی بیوی کو گلاس پسند آگئے اور اس نے اپنے گھر رکھ لیے۔ تب سے ہم اس عورت کو “گلاسوں والی” پکارتے ہیں اور اس کا اصل نام تک بھول چکے ہیں۔
4 users commented in " بدنام "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackایسی کہاوتوں کا اصل مقصد تربیت ہوتا ہے!!
ماشاءاللہ لڑکا سیانا تھا۔ ورنہ بھاگتے وقت تو شاید ہی کوئی ایسا سوچتا ہو۔:D
افضل صاحب، آئی ای پر آپ کا بلاگ اتنی دیر بعد کھلتا ہے۔ اگر کھل بھی جائے تو آدھا صفحہ دکھائی دیتا ہے۔اگر ممکن ہو تو اس کا حل تلاش کریں، پلیز۔ 🙁
ماورا صاحبہ
راشد کامران صاحب نے بھی ہماری توجہ اس طرف مبذول کروائی ہے اور انہی کی مدد سے ہم اس مسئلے کا حل تلاش کررہے ہیں۔ کچھ کچھ حل ہوگیا ہے اور کچھ حل ہو رہا ہے۔
افضل صاحب
ہمارے بچپن کے زمانہ میں ایسی کہانیاں سننے میں آتی تھیں بلکہ کئی مووی فلمیں بھی اسی طرح کی تربیّتی کہانیاں پیش کرتی تھیں ۔
ماوراء صاحبہ نے جو آئی ای کا مسئلہ بتایا ہے یہ کبھی کبھی ہوتا ہے ۔ اس کا حل مل جائے تو مجھے بھی مستفید ہونے کا موقع دیجئے گا ۔
Leave A Reply