تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اپنے سے طاقتور کر شکست دینے کیلیے صرف اور صرف ایک ہی نسخہ ابھی تک قابل عمل ثابت ہوا ہے اور وہ ہے دشمن کے کچھ لوگوں کو لالچ دے کر غداری کیلیے راضی کرلینا۔ تاریخ نے غدار کو کبھی عزت نہیں دی مگر پھر بھی ہم لوگ سو سو بہانوں سے غداری کے عذر تلاش کرلیتے ہیں اور اپنوں کی ہی تباہی کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ غداری کے بدلے ملی دولت بہت جلد ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ ٹيپو سلطان کو اسی کی فوج کے سپہ سالار میرجعفر نے گوروں کیساتھ مل کر شکتس دلوائی تھی مگر بعد میں اس کا نام عبرت بن گیا۔۔
ایک جاننے والے وکیل کا بھائی ٹورانٹو میں رہتا تھا۔ دو ماہ قبل وہ پاکستان چکر لگانے گیا اور اپنے کزن کے گھر میں قیام کیا۔ وہ چند ہفتے قیام کے بعد کینیڈا واپسی کیلیے روانہ ہوا مگر منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی گم ہو گیا۔
اس کے کزن کا بیٹا کہتا تھا کہ اس نے اسے ائرپورٹ پر ڈراپ کیا تھا اس کے بعد اسے معلوم نہیں کہ وہ کہاں گیا۔ وکیل صاحب خود پاکستان گئے تاکہ اپنے بھائی کو بازیاب کراسکیں۔ انہوں نے تھانوں کے چکر لگائے، سی آئی اے والوں سے معلوم کیا حتٰی کہ خفیہ والوں سے بھی رابطہ کیا مگر کسی نے بھی بھائی کے پکڑے جانے کی تصدیق نہیں کی۔ پھر انہوں نے کینیڈین ایمبیسی کے ذریعے ایف بی آئی والوں سے بھی معلوم کیا مگر تمام کوششیں بیکار گئیں۔
ایک دن اچانک کزن کے گھر پر کسی نے فون کیا اور کہا کہ وکیل کا بھائی اس کے پاس ہے اور وہ ایک کروڑ روپیہ دے کے اسے چھڑا لیں۔ وکیل نے جیسے تیسے روپوں کا بندوبست کیا اور رقم مقررہ جگہ پر پہنچا دی۔ اغواکنندگان نے وکیل سے کہا کہ اس کا بھائی سامنے والے احاطے میں بیٹھا ہوا ہے وہ اسے لے جائے۔ وکیل احاطے ميں داخل ہوا تو اپنے بھائی کو مردہ پایا۔
اس دوران پولیس کے کہنے پر وکیل نے اپنے کزن سے اپنے بیٹے کو پولیس کے پاس بھیجنے کی درخواست کی۔ پہلے تو کزن اور اس کے بیٹے نے لیت و لعل کی مگر جب دباؤ بڑھا تو کزن کا بیٹا تھانے حاضر ہو گیا۔ تھانے والوں نے دیسی طریقے استعمال کر کے کزن کے بیٹے سے سچ اگلوا ہی لیا۔
کزن کا بائیس سالہ بیٹا جو بیروزگار ہے نے بتایا کہ اس نے بیس لاکھ کے بدلے وکیل کے بھائی کو موٹروے پر اغواکنندگان کے حوالے کیا مگر اس کے بعد اسے نہیں معلوم کہ اس کے بھائی کو کس نے مارا۔ ہماری پولیس کے پاس بیشک جدید ہتھیار نہیں ہیں مگر اس کا مخبری کا نظام بہت مضبوط ہے۔ پولیس نے آخرکار اغواکنندگان کو بھی گرفتار کرلیا اور اب کزن کا بھائی اور دوسرے مجرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ چکے ہیں اور وکیل صاحب خالی ہاتھ واپس کینیڈا لوٹ چکے ہیں۔
یہ صدر مشرف ہی تھے جنہوں نے اپنوں کو بیچنے کی روایت قائم کی۔ جس طرح وکیل کے بھائی کے اغواکنندگان پکڑے گئے اسی طرح ایک دن صدر مشرف بھی اس جہان میں نہیں تو اگلے جہان میں ضرور پکڑے جائیں گے۔
No user commented in " کیسے کیسے لوگ – اپنوں کے گھاؤ "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply