کل سندھ اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں نئے اسمبلی ممبران نے حلف اٹھایا۔ پیپلزپارٹی کو چونکہ ایک دھائی بعد حکومت ملی تھی اسلیے اس کے جیالوں کا ایک سمندر اسمبلی ہال میں گھس آیا۔ سابق حکومت کے سپیکر بھی اسمبلی کو کنٹرول نہ کرسکے اور زبردست نعرے بازی میں حلف برداری کی تقریب منعقد ہوئی۔ اسی ہلڑبازی کے دوران پیپلز پارٹی کے جیالوں نے سندھ کے سابق وزیراعلٰی کی بھی پٹائی کردی۔
سابق وزیراعلٰی ارباب رحیم کیساتھ جو کچھ بھی ہوا اچھا نہیں ہوا اور ان کی اس درگت نے کوئی اچھی روایت قائم نہیں کی۔ پیپلز پارٹی کو اگر عرصے بعد حکومت ملی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ انتقام کی سیاست شروع کردے۔ جس طرح انہوں نے ایم کیو ایم کو معاف کیا ہے اس طرح انہیں ارباب رحیم کو بھی معاف کردینا چاہیے تھا۔ لیکن شاید جتنی تذلیل ارباب رحیم نے پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ کی کی ایم کیو ایم نے نہیں کی ہوگی۔ ایم کیو ایم نے تو جنرل مشرف کی سنت پر عمل کرتے ہوئے یو ٹرن لے کر اپنی گلوخلاصی کرالی مگر ارباب رحیم نے اپنے کئے کی سزا پالی۔
صدرمشرف کے دور میں اگر سب سے زیادہ شاہ کی وفاداری کسی نے کی تو وہ سندھ کے وزیراعلٰی اربات رحیم تھے۔ انہوں نے جنرل مشرف کو خوش کرنے کیلیے ایک بے مہار ہاتھی کی طرح پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے ہر رہنماؤں کی دھجیاں اڑائے رکھیں۔ انہوں نے چیف جسٹس اور دوسرے جج صاحبان کی معزولی پر بھی خوب باتیں کیں۔ یعنی انہوں نے ایک غنڈہ بن کر سندھ پر حکومت کی اور اپنے منہ سے جو چاہا بک دیا کسی کا کوئی دید لحاظ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے کلمہ شرک کہنے سے بھی گریز نہیں کیا اور کہا کہ جس کیساتھ امریکہ اور پاکستانی فوج ہو اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
ارباب رحیم نے بینظیر کے سیکیورٹی مانگنے پر کہا تھا کہ سیکیورٹی انہیں جیل ، بکتربند گاڑی یا پھر خدا کے ہاں ہی ملے گی۔ اس کے علاوہ انہوں نے بینظیر کے وزیراعظم بننے کے امکان پر عورت کی حکمرانی کو ملک کیلیے نہس قرار دیا تھا۔ اب مکافاتِ عمل دیکھیے ارباب رحیم خود اپنے لیے سیکیورٹی مانگ رہے ہیں۔
خدا کا کرنا دیکھیے یہی جنگل کا شیر جب اپنے آقا کی کھال اترنے اور اپنی کرسی چھننے کے بعد اسمبلی میں داخل ہوتا ہے تو اس کے اپنے سندھی بھائی اس کیساتھ دست و گریبان ہو جاتے ہیں اور اس کے کپڑے تک پھاڑ دیتے ہیں۔ لوگوں نے ان کے سعودی عرب جاکر عمرہ کرکے اپنے گناہ معاف کرانے کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی اور ان کی وہ درگت بنائی کہ وہ ساری عمر یاد رکھیں گے۔ ارباب رحیم حالانکہ اسمبلی کے پیچھے والے دروازے سے اندر داخل ہوئے تھے اور سندھ اسمبلی کے سپیکر جو ان کی جماعت کے ہی تھے بھی انہیں ذلیل ہونے سے نہ بچا سکے۔ ہم اکثر کہا کرتے ہیں کہ عوام کی طاقت کے بل بوتے پر حکومت کرنے والا کبھی ذلیل نہیں ہوتا مگر ایک آمر کی طاقت پر حکومت کرنے والے کی زندگی میں ایک دن ایسا آتا ہے کہ آمر بھی اس کو ذلیل و رسوا ہونے سے نہیں بچا سکتا۔
باقی ماندہ سیاست دانوں کو ارباب رحیم کی درگت سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنی طاقت کا سرچشمہ صرف اور صرف عوام کو ہی سمجھنا چاہیے ناں کہ کسی آمر یا امریکہ کو۔
No user commented in " ارباب رحیم اور مکافاتِ عمل "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply