ہماری خواتین ممبران اسمبلی اور وزراء کی تصاویر اب اسی طرح اخبارات میں چھپ رہی ہیں جس طرح شوبز کی اداکاروں کی چھپتی ہیں۔ ان کی چال ڈھال اور قیمتی ملبوسات سے یہ گمان تک نہیں ہوتا کہ یہ اس ملک کے حکرانوں کا حصہ ہیں جس کے عوام کی اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اس تصویر میں اداکارہ ریما کسی غیرملکی سٹور کا افتتاح کررہی ہے۔ اس کے مقابلے میں دو دوسری تصاویر دیکھیے جن میں ایک سندھ کی وزیر شازیہ مری کی ہے اور دوسری ہماری وزیراطلاعات شیریں رحمان ہیں۔ ان تینوں تصاویر کے معائنے سے آپ کو فرق کرنا مشکل ہو جائے گا کہ ماڈل گرل کون ہے اور وزیر کون؟
ہم تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو ہمارے نبی کی طرح سادہ زندگی گزارنے والے ہمیشہ کی زندگی پاگئے۔ وہ اپنے فلاحي کاموں کی وجہ سے رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ دوسری طرف امراء کی طرح رہن سہن رکھنے والے لوگ منوں مٹی تلے دب گئے اور آج ان کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں۔ ایران کا بادشاہ رضا شاہ پہلوی ہو یا عراق کا صدام حسین جہنم واصل ہوچکے ہیں اور ان کی اولادوں کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔
ہماری حکمران اشرافیہ کو چاہیے کہ وہ بھی سادگی کو شعار بنائے اور اپنی زندگی کو اس سائنسدان کی طرح عوام کیلیے وقف کردے جو اپنی لیباریٹری میں اپنے کام میں اتنا محو ہوتا ہے کہ اسے اپنے رکھ رکھاؤ کا خیال تک نہیں ہوتا۔
پتہ نہیں ہماری ممبر اسمبلی خواتین جو ریکارڈ تعداد میں اسمبلیوں میں پہنچی ہیں اپنی موجودگی سے فائدہ کیوں نہیں اٹھا رہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اسمبلی میں اس طرح بھرپور کردار ادا کرتیں کہ لوگ مردوں کی بجائے ان کو اپنا نجات دہندہ سمجھنا شروع کردیتے۔ ابھی تک تو یہ خواتین اسمبلیوں میں گھروں کی طرح مردوں کی ہاں میں ہاں ملا کر فرماں بردار بیوی، بہن یا بیٹی کا کردار ادا کررہی ہیں۔ حالانکہ خواتین جو گھروں کے بجٹ چلاتی ہیں سب سے زیادہ مہنگائی سے متاثر ہونے والا طبقہ ہیں اور ہماری اسمبلی ممبران مردوں سے زیادہ ایک عام عورت کے دکھ کو سمجھ سکتی ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ خواتین کے حقوق کیلیے جدوجہد کیساتھ ساتھ ان کے معاشرے میں بہتر کردار کیلیے کام کریں تاکہ ہماری اگلی نسل کو وہ اس طرح تیار کریں کہ وہ نیک اور صالح حکمرانوں کو چننے کیلیے اپنی عقل اور سمجھ کا استعمال کرسکے۔
7 users commented in " غریب ملک کی ماڈل گرل ممبرپارلیمنٹ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackjin 2 khatoon arkan e asembly ko aap ne point out kiya hai woh donon hi kafi vocal aur samajh boojh rakhne wali khawateen hain. agar unko Allah ne itni daulat de rakhi hai ya unhon ne apni mehnat se rizq kamaya hua hai to uss mein itna personal hone ki kia baat hai. jahan tak baat hai khawateen k huqooq ki baat kerne ki to iss mamle ko sirf khawateen tak mehdood kerna ya khawateen ko iss maamle tak mehdood rakhna khasi be insafi hai. in khawateen k political sense per aap kuch baat kerte to buhut behtar hota. I must say we should come out of our man n woman differences n start talking on issues rather than on personal things.
Btw As per my information Sherry Rehman was a journalist of high calibre and an editor too. As for Shazia Maree, she is one of the most vocal MPA’s n had been courageous enough to react to a personal assault by a PML MPA
محترمہ، آپ نے جو کچہ کہا اس سے ہم بھی متفق ہیں اور آپ کی یہ بات بھی درست ہے کہ ذاتیات کی بجائے قومی معاملات پر بحث کرنا زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ اس پوسٹ سے اگر ذاتیات کو نشانہ بنانے کا شبہ ہوا ہے تو ہم تحریر کی اس کمزوری کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
ویسے ہمارا مقصد خواتین کوظاہری نمودونمائش پر قومی معاملات کو ترجیح دینے پر ہی اکسانا تھا۔ دوسرے ہم نے کب کہا کہ مرد خواتین کے حقوق کی جدوجہد سے باہر رہیں۔ ہمارا مطلب تو یہ تھا کہ ہر شخص جس طرح اپنے حقوق کیلیے زیادہ جدوجہد کرسکتا ہے اسی طرح خواتین بھی اپنے حقوق کیلیے اسمبلی میں اپنی موجودگی سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
محترمہ ثوبیہ صاحبہ،
آپ یہ بات اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتی ہیں کہ ان وزیروں نے محنت سے اتنی پراپرٹی بنائی ہے? یہ خواتین ہی ہیں جو اپنے لباس اور چال ڈھال سے لوگوں کو دعوت گناہ دیتی ہیں۔ اللہ اور اسلام کی بات کرتی ہیں تو آپ کو خواتین کے اسلامی طرز زندگی کے بارے میں بھی علم ہونا چاہئے۔ بات پرسنل ہونے کی نہیں بات شرعی زندگی کی ہے۔ اتنا دکھاوا کرکے یہ وزیر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے ایسے کاموں کی وجہ سے ہی غریب عوام خود کو محرومی کا شکار سمجھتے ہیں اور احساس کمتری میں مبتلا ہو کر نظام تبدیل کرنے کے لیے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ جہاں تک آپ نے شیری رحمن کی ایڈیٹر شپ کا ذکر کیا ہے تو میں یہ واضح کرتا چلوں کہ میں بھی شعبہ صحافت سے وابستہ ہوں، مجھے یہ بتایا جائے کہ ایڈیٹرشپ جیسی 60 سے 70 ہزار تنخواہ کی نوکری میں کیا آپ وہ لینڈ کروزر خرید سکتی ہیں جو شیری رحمن کے پاس ہے? اگر پھر بھی آپ میری بات سے اتفاق نہیں کرتیں تو بےشک ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بجائے ڈیموکریٹک ریپبلک آف پاکستان رکھ کر اس ہی مثال پر عمل کریں جس کے تحت ’’کھلا کھائو اور ننگا نہائو‘‘ کہا جاتا ہے۔
جناب آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہے کہ صدام حسین جہنم پہنچ چکا ہے کیا آپ پر بھی ایرانوں علاموں کی طرح وحی نازل ہوتی ہے جس میں آپ کو بتا یا گیا ہے کہ صدام جنتی ہے یا جہنمی۔
شہراز صاحب، یہ بات تو آپ مانیں گے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد جتنے آدمیوں کے قتل میںصدام ملوث ہے کوئی اور نہیںہوگا۔ پہلے اس نے اپنے لوگ چن چن کر مارے، پھرایران عراق کی جنگ میں لاکھوں لوگوں کو مارا اور آخر میں امریکہ کے ذریعے اپنے ملک کابیڑہ غرق کرا دیا۔ جہنمی ہونے کیلیے اس سے بڑی شہادت اور کونسی چاہیے۔ ہاںخدا غفورالرحیم ہے وہ جسے چاہے بخش دے مگر امید ہے اس کی بخشش بھی اصول وضوابط کی پابند ہی ہو گی۔
کوئی دودھ کا دھلا یہاں نہیں پہنچ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ لوگ بہی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے
اور کیا کہوں
مجھے بس یہی کہنا تھا
Leave A Reply